خلاصہ تفسیر
سو ( اگر یہ انکار حق ہے تو) جس وقت (مرنے کے قریب کسی شخص کی) روح حلق تک آ پہنچتی ہے اور تم اس وقت (بیٹھے حسرت آلود نگاہ سے) تکا کرتے ہو اور ہم (اس وقت) اس (مرنے والے) شخص کے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں (یعنی تم سے بھی زیادہ اس شخص کے حال سے واقف ہوتے ہیں، کیونکہ تم صرف ظاہری حالت دیکھتے ہو اور ہم اس کی باطنی حالت پر بھی مطلع ہوتے ہیں) لیکن (ہمارے اس قرب علمی کو بوجہ اپنے جہل و کفر کے) تم سمجھتے نہیں ہو تو (فی الواقع) اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے (جیسا تمہارا خیال ہے) تو تم اس روح کو (بدن کی طرف) پھر کیوں نہیں لوٹا لاتے ہو (جس کی اس وقت تم کو تمنا بھی ہوا کرتی ہے) اگر (اس انکار قیامت و حساب میں) تم سچے ہو (مطلب یہ کہ قرآن صادق ہے اور وقوع بعث کا ناطق ہے، پس مقتضی وقوع متحقق ہوا اور مانع کوئی امر ہی نہیں، پس وقوع ثابت ہوگیا اور اس پر بھی تمہارا انکار اور نفی کئے چلا جانا بدلالت حال اس کو مستلزم ہے کہ گویا تم روح کو اپنے بس میں سمجھتے ہو کہ گو قیامت میں خدا دوبارہ روح ڈالنا چاہئے جیسا کہ مقتضیٰ قرآن کا ہے، مگر ہم نہ ڈالنے دیں گے اور بعث نہ ہونے دیں گے، جب ہی تو ایسے زور سے نفی کرتے ہو، ورنہ جو اپنے کو عاجز جانے، وہ دلائل وقوع کے بعد ایسے زور کی بات کیوں کہے، سو اگر تم اپنے بس میں سمجھتے ہو تو ذرا اپنا زور اسی وقت دکھلا دو، جبکہ کسی قریب الموت انسان کے بقائے حیات کے متمنی بھی ہوتے ہو اور دیکھ دیکھ کر رحم بھی آتا ہے، دل گیر بھی ہوتے ہو اور وہ زور دکھلانا یہ کہ اس روح کو نکلنے نہ دو، بدن میں لوٹا دو، جب اس پر بس نہیں کہ روح کو بدن سے نکلنے نہ دو تو اس کو دوبارہ پیدا کرنے سے روکنے پر کیسے تمہارا بس چلے گا؟ پس ایسے لاطائل دعوے کیوں کرتے ہو اور چونکہ مقام ہے نفی قدرت کا اور نفی علم مستلزم ہے نفی تعلق قدرت کو، اس لئے نحن اقرب جملہ معترضہ میں ان کے علم تام کی نفی فرما دی اور چونکہ یہ دلیل کافی ان کے لئے شافی نہ ہوئی، اس لئے لا تبصرون میں توبیخ بھی فرما دی اور چونکہ اس تقدیر سے اثبات قدرت بھی ہوا، اس لئے بعث کے ساتھ یہ توحید کی بھی دلیل ہے۔ آگے کیفیت مجازاۃ کی ارشاد ہے، یعنی یہ تو ثابت ہو چکا کہ قیامت اپنے وقت پر ضروری آوے گی) پھر (جب قیامت واقع ہوگی تو) جو شخص مقربین میں سے ہوگا (جن کا ذکر اوپر آیا ہے والسابقون الخ) اس کے لئے تو راحت ہے اور (فراغت کی) غذائیں ہیں اور آرام کی جنت ہے اور جو شخص داہنے والوں میں سے ہوگا (جن کا ذکر اوپر آیا ہے واصحب الیمین الخ) تو اس سے کہا جاوے گا کہ تیرے لئے (ہر آفت اور خطرہ سے) امن و امان ہے کہ تو داہنے والوں میں سے ہے (اور یہ کہنا خواہ ابتداً ہو اگر فضل یا توبہ کے سبب اول ہی مغفرت ہو جاوے یا انتہاً ہو اگر بعد سزا کے مغفرت ہو اور یہاں روح و ریحان کا ذکر نہ فرمانا نفی کے لئے نہیں، بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ سابقین سے ان امور میں کم ہوگا) اور جو شخص جھٹلانے والوں (اور) گمراہوں میں سے ہوگا تو کھولتے ہوئے پانی سے اس کی دعوت ہوگی اور دوزخ میں داخل ہونا ہوگا، بے شک یہ (جو کچھ مذکور ہوا) تحقیقی یقینی بات ہے، سو (جس کے یہ تصرفات ہیں) اپنے (اس) عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح (و تحمید) کیجئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post