امام ابو یوسفؒ زمانہ طالب علمی میں امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں آئے۔ ماں نے تو بھیجا تھا کہ دھوبی کے پاس جاؤ اور کپڑے دھونا سیکھو۔ راستے میں کہیں حضرت امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ امام ابوحنیفہؒ نے کچھ ایسا معاملہ کیا کہ ابویوسفؒ ان کے شاگرد بن گئے، حتیٰ کہ بعد میں علم میں بہت بڑا مقام حاصل کیا۔
ماں نے کہا: میں نے تجھے دھوبی کی طرف بھیجا تھا، تیرا باپ فوت ہوگیا تو کچھ کام کرتا، ہم کھاتے پکاتے۔ انہوں نے آکر امام اعظمؒ کو یہ بات سنائی۔ حضرت نے فرمایا کہ اپنی والدہ کو کہنا کہ میں ایک کام سیکھ رہا ہوں، جس پر مجھے بہت زیادہ آمدنی کی امید ہے۔
انہوں نے جاکر کہہ دیا۔ ان کی والدہ کو تشفی نہ ہوئی تو وہ خود امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں نے تو بیٹے کو دھوبی کے پاس بھیجا تھا کہ کوئی ہنر سیکھنا، آپ کے پاس کتابیں پڑھتا ہے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ میں اس کو ایسا ہنر سکھا رہا ہوں کہ یہ پستے کا بنا ہوا فالودہ کھایا کرے گا۔
ان کی والدہ نے سوچا کہ حضرت ایسے ہی میری تسلی کیلئے بات کر رہے ہیں۔ امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ بات آئی گئی ہوگئی۔ والدہ صاحبہ مطمئن ہوگئیں۔ ایک وقت آیا کہ امام ابو یوسفؒ عالم اسلام کے چیف جسٹس بنے۔
فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ وقت کا بادشاہ ہارون رشید میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کہنے لگا: حضرت میں نے آپ کیلئے ایک چیز بنوائی ہے، میں روز آپ کیلئے بھجوادیا کروں گا، میں نے چیز کھائی تو بڑی لذیذ تھی۔
میں نے پوچھا کہ یہ تھی کیا؟ کہنے لگا: حضرت یہ میرے لئے بھی کبھی کبھی بنتی ہے، لیکن آپ کو علمی مقام ایسا ملا کہ آپ کیلئے یہ روزانہ آیا کرے گی۔ امام ابویوسفؒ کہنے لگے: میں نے پوچھا بتایئے کہ ہے کیا؟ خلیفہ کہنے لگا کہ یہ پستے کا بنا ہوا فالودہ ہے۔
فرماتے ہیں کہ امام اعظمؒ کی بات مجھے یاد آئی کہ انہوں نے میری والدہ کو کہا تھا کہ میں ان کو ایسا ہنر سکھارہوں کہ یہ پستے کا بنا ہوا فالودہ کھایا کرے گا، دیکھا حق تعالیٰ یوں رزق دیتے ہیں۔
(اسلاف کے حیرت انگیز واقعات)
٭٭٭٭٭
Prev Post