حب رسولؐ الحمد للہ ہر مسلمان کے خون میں شامل ہے اور ایک حدیث کی رو سے تو مسلمان ہونے کے لیے آنحضرتؐ کی اتنی محبت کہ آپؐ ہر مسلمان کے باپ اور بیٹے سے زیادہ محبوب ہو جائیں، ہمارے عقیدے کا جزو ہے۔ لیکن حب رسولؐ کے کچھ تقاضے ہیں۔ جب تک وہ تقاضے پورے نہیں ہوں گے حب رسولؐ کا دعویٰ غلط ہو گا۔ افسوس یہ ہے کہ اکثریت ان تقاضوں سے یا تو واقف نہیں اور واقف ہیں تو غفلت کا شکار ہیں۔ ہر پڑھے لکھے اور جاہل کیلئے ان تقاضوں پر عمل کرنا واجب ہے۔
ان تقاضوں کی تفصیل میں جانا تو اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔ مختصراً یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ان تقاضوں کا تعلق سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے فرائض و واجبات کو اپنی ساری دنیاوی ضرورتوں پر ترجیح دینے سے ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کو تو سب فرض سمجھتے ہیں اور بہت سے دین دار مسلمان ان کی پابندی کرتے ہیں، مگر ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو معاملات کو دین کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ مثلاً خریدو فروخت میں دھوکے اور فریب سے کام لیتے ہیں۔ آمدنی میں حلال و حرام کا خیال نہیں رکھتے۔ خرچ میں اسراف کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آنحضرتؐ کی محبت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی محبت ہے۔ کیونکہ اللہ نے ہی آپؐ کو پیغمبر بنا کر بھیجا، آپؐ پر اپنا کلام نازل فرمایا اور آپؐ کی سنت کو جاری فرمایا۔ جو اس امت پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
اور سنت وہ ہے جو آنحضرتؐ کے قول و عمل سے یا آپؐ کے کسی عمل کو دیکھنے کے بعد سکوت کرنے کو کہتے ہیں یا پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہو۔ دین میں نئی زیادتی کو اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں۔
ایک عجیب و غریب خواب
اس مضمون کا اصل موضوع تو ’’آسان موت‘‘ ہے، مگر اس سے پہلے ایک خواب کا بیان پڑھ لیجئے، جو بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ راقم نے اپنے پچھلے مضمون ’’ہدیہ لینے دینے کے آداب‘‘ میں ایک بزرگ شاہ عبد العزیزؒ کا ذکر کیا تھا، جنہوں نے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیعؒ کو ہدیئے میں ایک کاغذ کا دستہ دیا تھا۔ مقصود یہ تھا کہ دوسرے شخص کو خوش کرنا یا اس کی ضرورت کا خیال رکھ کر ہدیہ دینا سب سے اچھا ہدیہ ہے۔ ان بزرگ نے والد صاحبؒ کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے اپنا خواب بیان کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت والد ماجدؒ کسی جگہ درس دے رہے ہیں اور پیچھے تختہ سیاہ (بلیک بورڈ) ہے۔ اس پر حضرت والد صاحبؒ نے ایک کا ہندسہ بنایا اور لوگوں سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ایک کا ہندسہ ہے۔ پھر اس کے دائیں طرف ایک نقطہ (صفر) لگا دیا اور پوچھا کہ اب کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: دس ہو گیا۔ پھر ایک اور نقطہ لگایا اور پوچھا: اب کیا ہوا۔ لوگوں نے کہا: سو ہو گیا۔ پھر اس کے آگے ایک نقطہ مزید لگایا اور پوچھا: اب کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: ہزار ہو گیا۔ پھر ایک نقطہ مزید لگایا اور پوچھا: اب کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: دس ہزار ہو گیا۔ پھر ایک نقطہ اور لگایا۔ وہ ایک لاکھ ہو گیا۔ پھر ایک نقطہ اور لگایا۔ دس لاکھ ہو گیا۔
پھر فرمایا: دیکھو جتنے نقطے لگتے جا رہے ہیں، اس میں دس گنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پھر انہوں نے وہ سارے نقطے مٹا دیئے، جو دائیں طرف لگائے تھے۔ پھر بائیں طرف نقطے لگانا شروع کئے اور کہا: دیکھو! یہ ایک کا ہندسہ ہے اور جو نقطہ میں نے دائیں طرف لگایا تھا، وہ اب بائیں طرف لگا دیا۔ بتایئے اب کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: اب اعشاریہ ایک ہو گیا۔ جس کا مطلب ہوا کہ ایک کا دسواں حصہ۔ ایک نقطہ اور لگا دیا اور فرمایا: اب اعشاریہ صفر ایک ہو گیا، یعنی ایک کا سو واں حصہ۔ ایک نقطہ اور لگایا اور پوچھا: اب کیا ہوا؟ کہا کہ اعشاریہ صفر صفر ایک ہو گیا۔ یعنی ایک ہزارواں حصہ۔ ایک نقطہ اور لگایا دس ہزارواں حصہ ہو گیا۔ فرمایا کہ بائیں نقطے لگانے سے یہ عدد بڑھنے کے بجائے گھٹ رہا ہے۔ دائیں طرف لگانے سے بڑھ رہا تھا۔
پھر فرمایا: دائیں طرف لگنے والے نقطے سنت ہیں اور بائیں طرف لگنے والے نقطے بدعت ہیں۔ یعنی اگر نبی کریمؐ کی سنت پر عمل کیا جائے تو عمل کی قیمت دس دس گنے کے حساب سے بڑھتی رہے گی اور اگر بائیں طرف نقطے لگائے جائیں تو بظاہر دیکھنے میں ویسے ہی نقطے ہیں۔ لیکن چونکہ عمل خلاف سنت ہے۔ لہٰذا ثواب بڑھنے کے بجائے گھٹتا چلا جائے گا۔ حدیث میں ہے۔
’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔‘‘ (اصلاحی خطبات۔ج۔19 ص۔58) سبحان اللہ! خواب کیا ہے۔ حکمت کا خزانہ ہے۔
یہ تو خواب کی بات تھی۔ اب حقیقی دنیا میں بزرگوں کی حالت دیکھئے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ذکر اللہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ذکر سے موت کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور پھر موت آسان ہو جاتی ہے۔
انسان کسی چیز سے اتنا نہیں ڈرتنا جتنا موت سے ڈرتا ہے اور ہر شخص جنت میں جانا چاہتا ہے اور موت کے سوا جنت میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے ذکر اللہ سے موت کا شوق پیدا کرلو۔ والد ماجدؒ کے ایک دوست ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے اپنے کلینک میں ایک بورڈ پر انگریزی میں ایک خوب صورت جملہ لکھ کر لگایا ہوا تھا۔ ترجمہ یہ ہے:
’’ہر شخص جنت میں جانا چاہتا ہے۔ مگر مرنا کوئی نہیں چاہتا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ موت تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ پل ہے جس پر چڑھے بغیر ملاقات کے محل میں پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ پل پر چڑھنے سے سانس تو پھولے گی۔ کچھ تکان بھی ہو گا۔ مگر عشق ایسی چیز ہے کہ وہ راستے کی ساری مشقتوں کو لذیذ بنا دیتا ہے۔ اللہ والے تو اس پل پر چڑھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ انہیں موت اتنی عزیز ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے ساری دنیا کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔
حافظ شیرازیؒ کو لوگ ایک آزاد شاعر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان کا شمار اولیاء اللہ میں ہوتا ہے۔ وہ عشق الٰہی کی شراب میں مست رہتے تھے۔ حضرت تھانویؒ ان کے بڑے مداح تھے اور اپنے مواعظ میں کثرت سے ان کے اشعار نقل فرماتے ہیں۔ وہ اسی عشق میں سرشار ہو کر فرماتے ہیں۔ فارسی اشعار کا ترجمہ یہ ہے:
’’کیا اچھا دن ہو گا جب میں اس ویران گھر (دنیا) سے جائوں گا
روح کی خوشی کا طلبگار ہو کر اپنے محبوب کی طرف جائوں گا
میں نے نذر مانی ہے کہ جب یہ غم ایک دن ختم ہو گا تو
تو میں میکدے کے دروازے پر عربی پڑھتا ہوا جائوں گا۔‘‘
لگتا ہے جیسے وہ موت کی طرف نہیں، عید کی طرف جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ یہ لقائے رب کا میکدہ ہے، جہاں عشق الٰہی کی شراب پلا کر مست کیا جاتا ہے۔ اللہ کے ان دیوانوں کے الگ الگ رنگ ہوتے ہیں۔ اب ایک اور بزرگ کا حال دیکھئے۔
ایک صوفی حاجی
ایسے ہی ایک اللہ کے دیوانے کا قصہ ہے کہ وہ حج کو جا رہے تھے۔ شوق میں ناچتے کودتے اشعار پڑھتے جارہے تھے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ کس رنگ میں ہیں۔ لوگ ان کو ایک آزاد آدمی، بلکہ مسخرہ سمجھ رہے تھے۔ بعضوں نے کہا بھی کہ تم اللہ کے گھر کی طرف جا رہے ہو، یہ ناچ گانا چھوڑو۔ اس نے کہا: ہم جانیں اور ہمارا خدا جانے۔ تمہیں کیا؟ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ حرم میں آئے۔ تو مطوف (معلم) نے کہا: یہ سامنے بیت اللہ ہے۔ بس بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی ایک خاص حالت طاری ہوئی اور بے ساختہ دل سے یہ فارسی شعر نکلا۔
(ترجمہ) ’’جب تو محبوب کے کوچے میں جائے تو اپنی جان سپرد کر دےایسا نہ ہو کہ پھر کبھی تجھے یہ تیری تمنا نصیب نہ ہو‘‘
پھر گرے اور جان سپرد کر دی۔ وہیں ختم ہو گئے۔ اب ان کا طواف عرش الٰہی کے گرد ہوگا۔
آسان موت
اوپر کے دونوں واقعات حضرت تھانویؒ نے مواعظ اشرفیہ۔ ج۔5 میں نقل فرمائے ہیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ شاید لوگ یہ شبہ کریں کہ موت کا ایسا شوق پہلے زمانے میں ہوتا ہو گا۔ آج کل ایسا نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں۔ نہیں صاحب! اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں اور نہ ہونے کی کیا وجہ؟ جس طریقے سے ان کو وہ حالت نصیب ہوئی تھی، وہی طریقہ اختیار کر لو۔ یعنی کثرت ذکر، کثرت طاعت اور گناہوں سے پرہیز تو یہ حالت پیدا ہو جائے گی۔ اسی زمانے کے دو نمونے آپ کو دکھلاتا ہوں۔
ہمارے مدرسے میں دو شخصوں کا انتقال ہوا۔ جو ذاکر و شاغل تھے۔ ایک بوڑھے تھے اور دوسرے جوان۔ بوڑھے کا قصہ تو یہ ہوا کہ وہ حسب معمول رات کو تہجد کے لیے اٹھے۔ مٹی کا لوٹا وضو یا تیمم کے لیے لینا چاہتے ہوں گے۔ بس لوٹے پر ہاتھ رکھے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ سبحان اللہ! کیا مبارک موت ہے۔ تہجد کا وقت ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ بس اب تہجد چھوڑو۔ ہمارے پاس آجائو۔ کیسی مبارک اور آسان موت ہوئی۔
دوسرے صاحب جوان کا قصہ یہ ہوا کہ ان کو بخار میں سرسام ہو گیا تھا۔ حالانکہ سرسام میں عقل نہیں رہتی۔ مگر ذاکر آدمی تھے، عقل بحال رہی۔ رات کو اکیلے ہی ختم ہو گئے۔ کسی کو بھی خبر نہ ہوئی۔ جب صبح کے قریب ان کو دیکھا گیا تو اس حالت میں ملے کہ ہاتھ پر تسبیح لپٹے ہوئے ہیں اور مراقبہ کی شکل میں گردن جھکائے بیٹھے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ یہ ذکر کا ثمرہ ہے، جو دنیا ہی میں نصیب ہوتا ہے۔ موت کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور موت آسان ہو جاتی ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔ ٭
٭٭٭٭٭
Next Post