بدھ اٹھائیس نومبر کو وزیر اعظم عمران خان نے نارووال میں کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں اور دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ کا تصور ہی پاگل پن ہے۔ پاکستان اور بھارت کے عوام دوستی چاہتے ہیں۔ دوطرفہ تجارت کے لیے سرحدیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے مضبوط ارادہ چاہئے۔ دونوں طرف سے غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن ہمیں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا ہے۔ کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی وزرا، بھارت کے دو وزیروں نوجوت سنگھ سدھو، ہرمرت کور بادل اور سکھ برادری کے نمائندہ ارکان نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ عمران خان نے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوتے ہی بھارت کو پیغام دیا تھا کہ اگر وہ ہماری طرف دوستی کا ایک قدم بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارت کے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو کرتارپور راہداری کھولنے کی یقین دہانی کرائی تھی، جس کی تائید آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے بھی کی گئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے سے دو روز قبل بھارت میں اس کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا تھا۔ سکھوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں ان کی کثیر تعداد آباد ہے، جبکہ بابا گرونانک کے گوردوارہ ننکانہ صاحب سمیت ان کے زیادہ گوردوارے پاکستان میں قائم ہیں۔ اس طرح بارہ کروڑ سکھوں کی پوری خواہش اور کوشش تھی کہ ان کے لیے دونوں ممالک میں آمدورفت آسان کی جائے۔ پاکستان نے اس سلسلے میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، بلکہ سکھوں کو ہمیشہ زیارت و عبادت کے لیے پاکستان آنے کی ہر ممکن سہولت فراہم کی، جس پر وہ پاکستان کی حکومتوں اور عوام کے شکر گزار رہے۔ پاکستان اور بھارت، دونوں ملکوں کے عوام بلاشبہ ایک دوسرے سے بہتر تعلقات اور خوشگوار سفارتی و تجارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی بہت سی مساجد، تاریخی عمارتیں اور یادگار مقامات بھارت میں موجود ہیں، اس لیے وہ بھی ویزا اور پاسپورٹ کی آسانیاں چاہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بھارت کی انتہا پسند حکومتیں اکثر رکاوٹیں کھڑی کر دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ مزارات کی زیارت کے لیے جانے والے افراد کو بھی اکثر پاکستانی جاسوس قرار دے کر گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے خوف کا عالم یہ ہے کہ وہ پاکستان پر کبوتروں اور پتنگوں کے ذریعے بھی جاسوسی کا الزام لگا کر اپنی جگ ہنسائی کا سامان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی جانب سے بھارتی سکھوں ہی کے لیے نہیں، تمام باشندوں کے لیے خیر سگالی کا پیغام بلاشبہ خوش آئند ہے، جس کا اظہار ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ لیکن بھارتی حکومتوں کی ہٹ دھرمی کے باعث کبھی مثبت ردعمل نظر نہیں آیا۔
کرتارپور راہداری کھولنے پر پاکستان کی گرم جوشی کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ بیان بھارت کے منفی رویئے کا غماز ہے کہ اس راہداری کے کھلنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوطرفہ مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔ بھارت تو گزشتہ بیس برسوں سے کرتارپور راہداری کھولنے کا مطالبہ کررہا ہے، لیکن دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان بات چیت اور مذکورہ سرحد کھولنا دو علیحدہ اور مختلف معاملات ہیں۔ سشما سوراج کے مطابق جب تک پاکستان بھارت میں کارروائیاں بند نہیں کرتا، ہم اس سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ بھارتی قیادت جس حقیقت سے نظریں چراتی چلی آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ افغانستان پر امریکی و اتحادی حملوں کے بعد سے پاکستان کو دوطرفہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بھارت اور دوسرے افغانستان سے۔ الحمدللہ پاکستان میں دہشت گردوں کا تقریباً خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی تک اس کا امکان نظر نہیں آتا، جبکہ بھارتی حکومتوں کی ڈھٹائی اور ہندو انتہا پسندی کے باعث اسے علیحدگی پسندوں اور بھارتی افواج کے ظلم و ستم کے باعث آزادی کے متوالوں سے مقابلہ درپیش ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر اپنے لاکھوں فوجیوں کے ذریعے قبضہ کر رکھا ہے۔ وہاں چلنے والی بھارت سے آزادی اور پاکستان کے حق میں تحریک کشمیری باشندوں کی اپنی ہے۔ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ کشمیری حریت پسندوں کو تو اب پاکستان سے یہ شکایت ہے کہ اس نے ان کی سیاسی و اخلاقی حمایت بھی کم کر دی ہے۔ اسی طرح مشرقی پنجاب میں سکھوں کی خالصتان تحریک اور دیگر علاقوں کی تامل ناڈو، حیدرآباد دکن، جوناگڑھ اور ماناودر جیسی علیحدگی پسند تحریکیں بھارتی حکومت، فوج اور پولیس کے مظالم کا ردعمل ہیں۔ بھارت ان سے نمٹنے میں اپنی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر دراصل کشمیر اور پانی کے مسئلے حل کرنا نہیں چاہتا۔ وزیر اعظم عمران کی یہ بات تو درست ہے کہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ کا امکان نہیں اور یہ کہ سرحد کے دونوں طرف بسنے والے آپس میں بہتر تعلقات چاہتے ہیں، لیکن مذاکرات سے انکار ہمیشہ بھارت نے کیا ہے۔ کشمیر اور پانی کے مسائل پر پاکستان کے ساتھ گفت و شنید سے گریز کرتے ہوئے بھارت کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ کسی طرح دوطرفہ تجارت شروع ہو جائے تاکہ وہ یہاں کی منڈیوں میں اپنا مال کا جال پھیلا کر پاکستان کی معیشت کو بالکل ہی تباہ کر دے۔ اس کے علاوہ دنیا کو یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب ہو جائے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت، ہم آہنگی اور تجارتی روابط استوار ہیں تو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ دوطرفہ تجارت کے لیے سرحدیں کھولنے کا جو خیال وزیراعظم عمران خان نے بھی ظاہر کیا ہے، وہ دراصل بھارت کا ایک خفیہ جال ہے، جس میں ’’صلح کل‘‘ نظر آنے والے نوجوت سنگھ سدھو جیسے کردار ماضی میں بھی آگے بڑھائے جاتے رہے ہیں۔ سدھوجی کے بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ امن اور محبت کے نام پر مرزا غلام قادیانی کے بھی بڑے مداح ہیں اور قادیانیوں کے جلسوں میں شریک ہو کر ختم نبوت کے مسلمہ عقیدے میں چھرا گھونپنے والوں کو بھی امن کا پیغامبر قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کے بعض ساتھیوں کے بارے میں قادیانیوں سے قربت یا ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی باتیں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں، جبکہ بھارت اور قادیانیت کے جال میں پھنسنا پاکستان اور مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ذرا وضاحت فرما دیں کہ بھارت سے معاملات کے سلسلے میں پاکستان سے کب، کہاں اور کون کون سی غلطیاں سرزد ہوئیں؟ تاکہ پاکستان کے لوگ اپنی ’’خامیوں‘‘ پر نظر ڈال کر ان کی حکومت کے اصل عزائم تک پہنچ سکیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post