حضرت تمیمؓ بن اوس شام کے ایک قبیلہ بنو الخم کے عیسائی تھے۔ 9ھ میں اپنے بھائی نعیم کے ساتھ رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ کے ایسے شیدائی ہوئے کہ ایک دم کو جدا نہ ہوئے۔ رسول اکرمؐ نے شام کے ایک علاقے قریۃ عینون کی سند ان کو دے کر فرمایا ’’ابو رقیہ! تم اس کے مالک ہو۔‘‘
عرض کی ’’اے رسول خدا! مجھے تو بس آپ کے قریب کے سواکچھ نہیں چاہیے۔ اجازت ہو تو باقی زندگی آپؐ کے قدموں میں گزاروں۔‘‘
رسول اکرمؐ نے ان کو مدینہ رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی تو یہ وہیں رہنے لگے۔ آپؐ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اتباع سنت کا بڑا اہتمام تھا، معمولی معمولی باتوں میں بھی سنت پر عمل کرتے تھے۔
ایک دن ان کے پاس روح بن زنباع آئے تو دیکھا کہ وہ اپنے گھوڑے کے لیے جو پھٹک رہے ہیں، انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے آدمی ہو کر وہ اس کام کو خود کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ابورقیہ! اتنے لوگ آپ کے گرد جمع ہیں۔ یہ معمولی کام ان میں سے کوئی بھی کر سکتا ہے، تو آپ کو زیبا نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے جواب دیا ’’روح! تم کو نہیں معلوم کہ اس کام میں کتنا ثواب ہے۔ میں نے رسول اکرمؐ کو ارشاد فرماتے سنا ہے ’’جو شخص اپنے گھوڑے کے لیے جو صاف کرتا ہے، پھر اس کو کھلاتا ہے تو ہر دانے کے بدلے میں اس کو ایک نیکی ملتی ہے۔‘‘ روح! ذرا تم ہی بتائو، جس بات میں ہمارے پیارے رسولؐ نے اتنا عظیم ثواب بتایا ہے، اس کو کیسے ترک کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (مسند احمد ابن حنبل جلد 4 ص 102)
دنیا قدموں میں گرتی ہے
ایک بزرگ درس دے رہے تھے کہ اس دوران ایک نواب صاحب آئے اور ملاقات کی درخواست کی، نواب صاحب، جب رخصت ہونے لگے تو اس بزرگ کی خدمت میں اشرفیوں کی ایک تھیلی پیش کی اور کہا کہ یہ آپ کی ضروریات کے لئے ہیں۔
بزرگ کہنے لگے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، نواب نے کہا کسی کار خیر میں خرچ کر دیجئے، فرمایا مجھے کیوں وکیل بناتے ہو، نیکی کا کام ہے خود ہی کر لو، بہر حال بزرگ نے وہ تھیلی نہیں لی، وہ نواب باہر جانے لگے تو مسجد سے باہر بزرگ کی جوتیوں میں وہ تھیلی رکھ دی اور چلے گئے، بزرگ نے درس دیا، پھر فارغ ہو کر جب جانے لگے اور تھیلی جوتوں میں دیکھی تو فرمایا جتنا بھی اس خبیث شے (دولت) سے دور بھاگو، یہ قدموں میں ہی گرتی ہے۔
٭٭٭٭٭