علمی وقار کی حفاظت:
ایک مرتبہ امام بخاریؒ دریائی سفر کر رہے تھے کہ ایک ہزار اشرفیاں ان کے پاس تھیں، ایک شخص نے کمال نیاز مندی کا طریقہ اختیار کیا اور امام بخاریؒ کو اس پر اعتماد ہوگیا، اپنے احوال سے اس کو مطلع کیا، یہ بھی بتا دیا کہ میرے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں۔
ایک صبح کو جب وہ شخص اٹھا تو اس نے چیخنا شروع کیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفی کی تھیلی غائب ہے۔ چنانچہ جہاز والوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ امام بخاریؒ نے موقع پا کر چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دی۔ تلاشی کے باوجود وہ تھیلی دستیاب نہ ہو سکی تو لوگوں نے اسی الزام لگانے والے شخص کو ملامت کی۔
سفر کے اختتام پر وہ شخص امام بخاریؒ سے پوچھتا ہے کہ آپ کی وہ اشرفیاں کہاں گئیں؟ امام صاحبؒ نے فرمایا: میں نے ان کو دریا میں ڈال دیا۔ کہنے لگا اتنی بڑی رقم کو آپ نے ضائع کردیا؟ فرمایا کہ میری زندگی کی اصل کمائی تو ثقاہت کی دولت ہے، (اگر چوری کا جھوٹا الزام بھی لگ جاتا تو یہ دولت تباہ ہو جاتی) چند اشرفیوں کے عوض میں اس کو کیسے تباہ کرسکتا تھا۔ (مقدمہ کشف الباری، ص: 132 بحوالہ آفتاب بخارا 118)
غور کیجیے! امام بخاریؒ نے علمی وقار کی حفاظت کی خاطر اپنے کثیر مال کو ضائع کرنا پسند کیا، ثقاہت پر ادنیٰ آنچ آئے اور ان کی ثقاہت پر حرف گیری کی جائے، اسے برداشت نہیں کیا، آج خدا نے ہمیں بھی علم کی دولت سے نوازا ہے، علم کے نور سے منور فرمایا ہے، اسی علم کی دستار ہمارے سر پر لپیٹی گئی ہے، انہی کی کتاب پڑھ کر ہم عالم ہو رہے ہیں تو مال کی خاطر دولت کی لالچ میں علمی وقار کا سودا نہیں کرنا چاہئے، فانی دولت کے لیے مال داروں کے سامنے اپنے آپ کو رسوا وذلیل نہ کریں، جس سے ہمارا علمی وقار مجروح ہو جائے، نیز طلبائے کرام کے ساتھ شفقت کا یہ عالم ہوتا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں: آپؒ کی غذا بہت کم تھی اور طلبہ پر بہت زیادہ احسان وکرم فرماتے تھے۔ (فتح الباری 1/481)
یہ امام بخاریؒ کی خاص صفت بخاری پڑھے ہوئے اساتذہ کرام کو اپنانا چاہیے اور طلبہ کو اپنا غلام یا نوکر سمجھنے کے بجائے ان پر احسان وکرم کا معاملہ کریں، اس لیے یہ طلبہ اساتذہ کے لیے دو طرح سے محسن ہیں، ایک تو یہ کہ انہی کے طفیل دنیا میں روزی ملتی ہے اور انہی کے ذریعہ آخرت کی سرخروئی نصیب ہوگی۔ یہ طلبہ علوم کے محافظ اور ناشر بنیں گے۔ انہی کے واسطے سے دین کا فیض عالم میں پہنچے گا، طلبہ کے ساتھ ترش روئی ونازیبا رویہ خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف ہے، غور کیجیے! امیر المومنین فی الحدیث امام بخاریؒ جب طلبہ کے ساتھ احسان وشفقت کا معاملہ کرسکتے ہیں، جن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے تو ہمیں تو ضرور کرنا چاہیے!
امام بخاریؒ کی نماز:
نماز بندئہ مومن کی معرا ج ہے، حق تعالیٰ سے قرب الٰہی کا ذریعہ ہے، صحابہ کرامؓ کی حالت، نماز میں ایسی ہوتی کہ گویا کہ وہ خشک لکڑی ہیں، آپؐ کو نماز سے اتنا لگائو تھا کہ عبادت کرتے ہوئے پائے مبارک پر ورم آجاتا، بلکہ پھٹ جاتا، کوئی ادنیٰ سا معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے، اسی نماز کے تعلق سے آپؐ نے حدیث جبرئیل میں تعلیم دی کہ ’’نماز میں اتنا استحضار پیدا کرو کہ نماز میں یہ تصور قائم ہو جائے کہ حق تعالیٰ کو تم دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو توکم ازکم یہ تصور تو قائم کرو کہ حق تعالیٰ تم کو دیکھ رہے ہیں‘‘ (مشکوٰۃ، ص: 11)، اس سے عبادتوں میں احسانی کیفیت حاصل ہوگی۔ امام بخاریؒ کی نماز کیسی احسانی کیفیت سے معمور تھی، آپ اس واقعہ سے اندازہ لگایئے کہ ایک دفعہ آپؒ نماز پڑھ رہے تھے، بھڑنے آپ کے جسم پر سترہ دفع کاٹا، جب آپؒ نے نماز پوری کی تو کہا کہ دیکھو کونسی چیز ہے جس نے مجھے نماز میں تکلیف دی ہے، شاگردوں نے دیکھا تو بھڑ تھی، جس کے کاٹنے سے ورم آگیا تھا، آپؒ سے جلدی نماز ختم کرنے کی بات کہی گئی تو فرمایا کہ میں جس سورت کی تلاوت کررہا تھا، اس کے ختم کرنے سے قبل نماز ختم کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔(فتح الباری 1/481)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post