معارف و مسائل
لَّا یَمَسُّہٗ… یہاں دو مسئلے غور طلب اور ائمہ تفسیر میں مختلف فیہ ہیں، اول یہ کہ نحوی ترکیب کے اعتبار سے اس جملے میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ جس کتاب کی ایک صفت مکنون آئی، یہ جملہ اسی کتاب کی دوسری صفت ہے اور ضمیر لا یمسہ کی اسی کتاب کی طرف راجع ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوتے ہیں کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ کو سوائے پاک لوگوں کے اور کوئی نہیں چھو سکتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں مطہرون کی مراد صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں، جن کی رسائی لوح محفوظ تک ہو سکے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں لفظ مس اپنے حقیقی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں نہیں لیا جا سکتا، بلکہ مس کرنے اور چھونے کے مجازی اور لازمی معنی مراد لینے ہوں گے، یعنی لوح محفوظ میں لکھے ہوئے مضامین پر مطلع ہونا، کیونکہ لوح محفوظ کو ہاتھ سے چھونا کسی مخلوق فرشتے وغیرہ کا کام نہیں۔ (قرطبی) بیان القرآن کے مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں یہی ترکیب اور مفہوم اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے۔
دوسرا احتمال اس جملے کی ترکیب نحوی میں یہ ہے کہ اس کو قرآن کی صفت بنایا جائے جو اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ اس صورت میں لا یمسہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہوگی اور اس سے مراد وہ صحیفہ ہوگا جس میں قرآن لکھا ہوا ہو اور لفظ مس اپنے حقیقی معنی ہاتھ سے چھونے کے مفہوم میں رہے گا، مجاز کی ضرورت نہ ہوگی، اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کو ترجیح دی ہے اور امام مالک نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ میں نے سنا ہے ان سب میں بہتر یہ قول ہے کہ اس کا وہی مفہوم ہے جو سورئہ عبس کی آیت کا ہے۔ (قرطبی و روح المعانی) اور اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ جملہ کتاب مکنون کی صفت نہیں، بلکہ قرآن کی صفت ہے اور قرآن سے مراد وہ صحیفے ہیں، جو وحی لانے والے فرشتوں کے ہاتھ میں دیئے جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post