قاضی عمر بن ابی لیلیٰؒ اپنے دور قضاء کا ایک حیرت انگیز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی مجلس قضاء میں بیٹھا ہوا تھا، میرے پاس ایک بڑھیا اور ایک جوان عورت آئی۔ بڑھیا تو آتے ہی بولنے لگی۔ پھر وہ لڑکی بولی کہ حق تعالیٰ قاضی کو نیکی عطا فرمائے، اسے کہئے کہ یہ چپ ہو جائے، میں اپنی اور اس کی بات کروں گی، اگر میں کہیں بھی غلطی کروں تو یہ بڑھیا مجھے ٹوک دے۔ (قاضی نے بڑھیا کو خاموش کرایا)
پھر وہ لڑکی کہنے لگی کہ یہ بڑھیا عورت میری پھوپھی ہے، میرے والد مجھے ان کی نگرانی میں چھوڑ کر وفات پاگئے تھے تو اس نے میری تربیت کی اور اچھی تربیت کی، جب میں جوان ہوگئی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ شادی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اور اس طرح ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے تو اس نے میری شادی ایک زرگر (سنار) سے کردی۔ وہ (سنار) اور میں گویا دونوں پھول تھے۔ وہ سمجھتا تھا کہ حق تعالیٰ نے میرے علاوہ کوئی اور نہیں بنائی اور میں بھی یہ سمجھتی تھی کہ ان کے علاوہ خدا نے کوئی پیدا نہیں کیا، وہ روزانہ بازار جاتا اور کما کر شام کو گھر لوٹ آتا۔
میری پھوپھی نے جب ہم دونوں میں ایک دوسرے سے اتنا لگاؤ دیکھا تو یہ حسد میں مبتلا ہوگئی۔ ایک دن اس نے اپنی بیٹی کو خوب بناؤ سنگھار کیا اور میرے شوہر کے آنے کے وقت اسے میرے پاس بھیجا تو میرے شوہر کی جب اس پر نظر پڑی تو اس نے میری پھوپھی سے اس کا رشتہ مانگا۔ اس نے کہا کہ ایک شرط ہے، وہ یہ کہ تو اپنی بیوی (یعنی تیرا کام) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیدے۔ میرے شوہر نے کہا میں نے اس کا معاملہ تیرے سپرد کردیا، تو پھوپھی نے کہا کہ میں نے اسے تین طلاق دیدیں۔ اس کے بعد پھوپھی نے اپنی بیٹی کا نکاح اس زرگر کے ساتھ کر دیا اور وہ اس کے ساتھ بھی اسی طرح رہنے لگا۔ صبح جاتا اور شام کو لوٹ آتا۔
جب میری عدت گزری تو میں نے اسے کہا پھوپھی جان اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کا گھر چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو جاؤں؟ تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔ تو میں دوسری جگہ منتقل ہوگئی۔ میری پھوپھی کا شوہر کافی عرصے سے غائب تھا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے میرا بھی پوچھا کہ بھتیجی کہاں ہے؟ تو پھوپھی نے بتایا کہ اس کی شادی ہوگئی تھی، وہاں سے طلاق ہوگئی اور وہ دوسری جگہ رہ رہی ہے۔ تو اس نے کہا کہ اس پر جو مصیبت گزری ہے، ہمیں اس کی تسلی کیلئے جانا چاہئے۔ مجھے اس کے آنے کی اطلاع ملی تو میں نے خوب بناؤ سنگھار کیا اور اس کے سامنے آئی۔ اس نے مجھے سلام کیا اور میری اس مصیبت پر مجھے تسلی دی اور پھر کہا کہ میری کچھ جوانی ابھی باقی ہے، اگر میں تجھ سے نکاح کرلوں تو تجھے اعتراض تو نہیں؟
میں نے کہا کہ مجھے اعتراض نہیں، لیکن پھوپھی کا معاملہ میرے سپرد کردو، اس نے میرے سپرد کردیا تو میں نے اسے تین طلاقیں دیدیں۔ چنانچہ پھر وہ کسی مسافر کی طرح اپنا سامان لے کر میرے گھر منتقل ہوگیا۔ اس کے پاس چھ ہزار درہم بھی تھے، کچھ عرصے وہ میرے ساتھ رہا اور بیمار ہوکر مر گیا۔
جب میری عدت گزر گئی تو میرا پہلا شوہر آیا اور تعزیت کی، جب مجھے اس کے آنے کا معلوم ہوا تو میں نے خوب بناؤ سنگھار کیا، پھر اس کے سامنے آئی۔ اس نے مجھ سے کہا: اے فلانی تجھے معلوم ہے کہ مجھے دنیا میں تو سب سے زیادہ محبوب اور عزیز تھی اور اب تو رجوع کرنا بھی ہمارے لئے حلال ہوگیا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟
تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، مگر میری پھوپھی کی بیٹی کا یعنی تمہاری بیوی کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیدو، تو اس نے اس کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیدیا تو میں نے اسے تین طلاقیں دیدیں، یہ سن کر بڑھیا اچھل پڑی اور فوراً بولی خدا تعالیٰ قاضی کو نیکی عطا فرمائے۔ میں نے اس کے ساتھ ایسا ایک ہی بار کیا تھا، جبکہ اس نے دو بار کیا ہے، پھر قاضی عمر بن محمد ابی لیلیٰؒ نے کہا: ایک کے بدلے ایک اور ابتداء میں ظلم کرنے والا بڑا ظالم ہوتا ہے، چل اپنے گھر جا۔ (بحوالہ مؤمنات کا قافلہ اور اور ان کا کردار)
حاصل… سچ ہے جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا ہے، اس میں وہ خود گرتا ہے، لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ ظلم سے ہمیشہ پرہیز کرے اور اس واقعہ سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ حق تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post