سرفروش

0

عباس ثاقب
میں جیپ مسافر خانے کے باہر ہی چھوڑ کر ظہیرکی تلاش میں چل دیا۔ وہ اسی جگہ ایک ڈھابے پر میرا منتظر تھا۔ اس نے ایک تین منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ اس دوران میں اپنے لیے ’’یاتری آشرم‘‘ میں رہائش کا انتظام کرچکا ہے۔
میں نے کہا۔ ’’بہت خوب، اب ہم دونوں کھانا کھائیں گے، پھر ہمیں اس مٹھو سنگھ کے اس ناری نکیتن کا جائزہ لینے جانا ہے، جہاں وہ بچیاں قید ہیں۔ مشرا بتا رہا تھا کہ مانک بھی وہیں گیا ہوا ہے‘‘۔
میری بات سنتے ہی ظہیر کے چہرے پر گمبھیر سنجیدگی طاری ہوگئی۔ اس نے گہرا سانس بھر کے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ لیکن اچھا ہے کہ وہ خبیث میرے سامنے نہ ہی آئے۔ اسے جہنم رسید کر کے مجھے بے حد خوشی ہوگی‘‘۔
میں نے اسے تسلی دی۔ ’’بھائی، اللہ سے دعا کرو کہ ہم ان تینوں ستم رسیدہ بچیوں کو ان درندوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس کے بعد جیسے دل چاہے اپنی خواہش پوری کرلینا، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بس اتنا یاد رکھنا کہ انتقام کی آگ میں اندھا ہوکر اپنی زندگی قربان نہ کر دینا۔ تم ایک بہت بڑے مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہو۔ اپنے قائد سے محروم ہوکر آزادی کے لیے جان لڑانے والے تمہارے ساتھی بھی ہمت ہار سکتے ہیں‘‘۔
ظہیر نے میری بات غور سے سنی اور پھر بھاری لہجے میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے جمال بھائی۔ میں آپ کی یہ یاد دہانی ذہن میں رکھوں گا‘‘۔
ہم نے ڈھابے پر لگ بھگ خاموشی میں کھانا کھایا۔ دونوں ہی سوچوں میں گم تھے۔ اچانک مجھے کچھ خیال آیا۔ ’’یار ظہیر، یہ بتاؤ، وہ تمہاری اور سندری کی پریم کہانی کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی؟‘‘۔
میری بات سن کر ظہیر کے لبوں پر ایک زخمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’کاش آپ یہ سوال نہ پوچھتے جمال بھائی۔ اب میں اس قصے کو فراموش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ویسے بھی مجھے ڈر لگتا ہے کہ سندری کے چکر میں اپنے اصل مشن سے غفلت کا مرتکب نہ ہوجاؤں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار، جہاں تک میں تمہیں سمجھ سکا ہوں، تم جان تو دے سکتے ہو، اپنے فرض سے آنکھ نہیں چرا سکتے۔ لیکن اگر اپنے مشن کو متاثر کیے بغیر زندگی کی اہم خوشی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ تو کیا ہرج ہے؟‘‘۔
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’فی الحال تو دعا ہی کی جا سکتی ہے!‘‘۔
میں وہاں سے واپس شانتی استھان گیا اور جیپ لے کر ظہیر کو ساتھ لیے پٹیالے کے مضافات میں امرا کے علاقے میں واقع ناری نکیتن کی طرف روانہ ہو گیا۔
مجھے ناری نکیتن کی تلاش میں زیادہ نہیں بھٹکنا پڑا۔ اس دو منزلہ، طویل و عریض، عالی شان حویلی کو علاقے کی باقی رہائشی عمارتوں میں نمایاں کرنے والی کوئی خاص بات مجھے دکھائی نہیں دی۔ حویلی کے دو دروازے تھے۔ ایک بہت بڑا، محرابی شکل کا پھاٹک نما مرکزی دروازہ اس وقت سختی سے بند دکھائی دیا۔ البتہ اس کے پہلو میں واقع نسبتاً چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ دونوں ہی دروازے انتہائی مضبوط اور بظاہر ناقابل شکست لگ رہے تھے۔
ہم حویلی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے سامنے سے گزر گئے اور پھر کچھ فاصلہ طے کر کے مڑے اور ایک بار پھر سامنے سے گزرے۔ یہ کوئی بہت زیادہ پُر رونق علاقہ نہیں تھا۔ بہت سے گھروں کے سامنے باغیچے اور پختہ برآمدے بھی دکھائی دیئے، لیکن ناری نکیتن کے ساتھ ایسی کوئی اضافی جگہ نہیں تھی۔ اگر اس حویلی میں کوئی گاڑی تھی تو وہ بڑے دروازے کے ذریعے اندر لے جاکر کھڑی کی جاتی ہوگی۔ نچلی منزل اور اوپری منزل دونوں کے بیرونی رخ پر کئی کھڑکیاں تھیں۔ لیکن ہمیں وہ سب کی سب بند دکھائی دیں اور عمارت میں روشنی کی کوئی جھلک ہمیں دکھائی نہ دی۔
وہاں سے ہم واپس پٹیالے کے گنجان حصے میں آئے۔ اس دوران میں ظہیر زیادہ تر خاموش رہا تھا۔ شاید سندری کا ذکر چھیڑ کر میں نے اس کے دل میں یادوں کی محفل دوبارہ آراستہ کردی تھی۔ میں نے فیصلہ کیا تھاکہ اب میں اپنے طور پر یہ کہانی پھر نہیں چھیڑوں گا۔ لیکن ظہیر شاید خود ہی اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’آپ کو پتا ہے، میں نے سندری کے بھائی کے اس دوست کا پتا چلالیا ہے، جس کی جاگیر پر سندری کو زبردستی کا مہمان بناکر رکھا گیا ہے؟‘‘۔
اس کی بات سن کر میں چونکا۔ ’’کیا واقعی؟ تو پھر تم نے کیا اس سے رابطے کی کوشش کی؟‘‘۔
ظہیر نے اداسی بھرے چہرے کے ساتھ نفی میں سر ہلایا۔ ’’جمال بھائی، سندری کی عزت مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اس سے رابطے کی کوئی بھی کوشش میزبانوں کے علم میں آسکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ یقیناً سارے معاملے سے واقف ہوں گے، لیکن میری ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں یہ بات عام لوگوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ میں اس کی بدنامی کا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہوں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بھائی یہ معاملہ کسی انجام تک پہنچانے کا کوئی راستہ تو ڈھونڈنا پڑے گا۔ اگر سندری کے بھائی اور بھابھی کے ساتھ میری سنگین قسم کی مڈ بھیڑ نہ ہوچکی ہوتی تو میں شاید براہ راست ان سے تم دونوں کو ہمیشہ کے لیے ملانے کی منت سماجت کرتا۔ لیکن اب تو وہ میرے خون کے پیاسے ہو چکے ہوں گے‘‘۔
ظہیر نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’بکرم جیت سنگھ بھلا آدمی ہے۔ یاروں کا یار۔ لیکن روایات کی غلامی سے مجبور ہے۔ میرے دل میں اس کے لیے کوئی ناراضی نہیں ہے۔ سب حالات کا چکر ہے‘‘۔
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے اضافہ کیا۔ ’’روایات سے زیادہ وہ اپنی بیوی کی جہالت سے مجبور ہے۔ وہ اس کی غیرت جگانے کے نام پر اشتعال نہ دلائے تو شاید بکرم جیت ٹھنڈے دل سے تم دونوں کے معاملے میں غور کرنے پر راضی ہو بھی جائے‘‘۔
ظہیر کو اس کے ٹھکانے کے قریب چھوڑ کر میں شانتی استھان پہنچا تو مشرا بے تابی سے میرا منتظر تھا۔ ’’اچھا ہوا آپ آگئے۔ مانک جی کچھ ہی دیر پہلے یہاں آئے تھے۔ میں نے آپ کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔
میں نے تیزی دھڑکتے دل پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر چلو، مل لیتا ہوں ان سے‘‘۔
مشرا نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’وہ یہاں سے اپنے گھر گئے ہیں۔ ہم آدھے گھنٹے بعد وہاں جائیں گے۔ میں آپ کو اپنی موٹر سائیکل پر وہاں لے چلوں گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’موٹر سائیکل کیوں؟ میری جیپ ہے ناں! یہ بتاؤ تم نے اسے میرے بارے میں کیا بتایا ہے؟‘‘۔
مشرا نے کچھ سوچا اور پھر کہا۔ ’’وہی، جو آپ نے مجھے اپنے بارے میں بتایا تھا۔ آپ دلّی کے رئیس ہیں۔ صرف صاف ستھرا مال پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’ان کشمیری لڑکیوں میں میری خصوصی دل چسپی کے بارے میں نہیں بتایا؟‘‘۔
مشرا نے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا۔ ’’بالکل بتایا ہے۔ مگر وہ کہہ رہے تھے کہ وہ کرائے پر چلنے والا مال نہیں ہے اور ان کی قیمت ادا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ میں نے بتایا کہ آپ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ان کے بارے میں وہ تفصیلی بات کریں گے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ جب چلنا ہو، مجھے بلالینا، انتظار کر رہا ہوں‘‘۔
لگ بھگ پونے گھنٹے بعد ہم دونوں پٹیالے کی چھوٹی بڑی سڑکوں اور گلیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہم نے ریل کی پٹریاں عبور کیں، جس کے فوراً بعد خوش حال لوگوںکی ایک رہائشی آبادی میں داخل ہوگئے۔ یہاں لگ بھگ ہر گھر کے ساتھ ایک باغیچہ اور گاڑی کھڑے کرنے کی جگہ تھی۔ مشرا کے اشارے پر میں نے ایک جنگلا نما پھاٹک کے سامنے جیپ روک دی۔ مشرا اترکر پھاٹک کے پاس گیا اور ساتھ والے ستون پر نصب برقی گھنٹی بجائی۔ چند لمحوں بعد ہی ایک نوکر پھاٹک پر آیا اور مشرا کو دیکھتے ہی پھاٹک کھول دیا۔ میں بلا تکلف جیپ اندر لے گیا۔
ہم نوکر کے پیچھے ایک نشست گاہ میں پہنچے۔ مشرا مجھے آرام دہ چرمی صوفے پر بٹھاکر گھر کے اندرونی حصے میں کہیں غائب ہوگیا۔ میں نے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیا۔ گھر کی ہر چیز سے آسودگی اور امارت جھلک رہی تھی۔ ایک گندے دھندے سے وابستہ مانک کی یہ آن بان میرے لیے غیر متوقع تھی۔
تبھی ایک آہٹ نے مجھے چونکا دیا۔ مشرا کے ساتھ نشست گاہ میں داخل ہونے والا شخص شب خوابی کے لبادے میں ملبوس تھا۔ عمر پچاس اور پچپن کے درمیان، رنگ گندمی، نقش و نگار موٹے ، جسم فربہ، قد درمیانہ۔ میری طرح وہ بھی گہری نظری سے مجھے تول رہا تھا۔ ’’تو آپ ہیں بہادر سنگھ!‘‘۔
اس کے لہجے میں تجسس اور شک کی ملاوٹ تھی۔ میں نے گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’صرف بہادر سنگھ نہیں، رائے تیغ بہادر سنگھ ساندھو! …۔ آپ کے لباس سے لگ رہا ہے کہ آپ کو کسی معزز مہمان سے ملاقات کے آداب و اطوار کی بالکل سمجھ نہیں ہے۔ براہ کرم پورا لباس پہن کر آئیے!‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More