لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ عوام بے حد غریب ہیں۔ غریبوں کی سب سے بڑی ضرورت روٹی، کپڑا اور مکان ہے۔ پچاس برس پہلے اس نعرے پر ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی میدان مار لیا تھا۔ انہوں نے سوتے ہوئے شیر کو جگا دیا، لیکن روٹی، کپڑا اور مکان نہ دیئے۔
آج کے ماحول میں عمران خان نے اس نعرے کو نئے انداز سے لگا کر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں کے پاس رہنے کا ٹھکانہ ہی نہیں، اپنی چھت نہیں، ان میں اور جنگل کے آوارہ جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ان لوگوں میں نہ عزت نفس ہوتی ہے، نہ غیرت ہوتی ہے۔ روٹی ملتی نہیں۔ علاج اور تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان کے حوصلے بلند ہیں۔ انہوں نے ان غریب بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر بنا کے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ خدا جانے عمران خان کو راستے کی مشکلات کا اندازہ ہے کہ نہیں۔ راقم کو اس صورت حال سے گہری دلچسپی ہے اور وہ اخبار میں اس موضوع پر مسلسل لکھ رہا ہے۔
اس لئے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔
(1) پچاس لاکھ گھروں کی تعداد کو پانچ لاکھ کر دیا جائے۔
(2) دس لاکھ پلاٹ بنا کر غریبوں کو مفت دیئے جائیں۔ زمین خریدنے، بیچنے کی اجازت نہ ہو۔ زمین کی ملکیت پندرہ برس کے لئے سرکار کے پاس رہے۔ تعمیراتی انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ بنی بنائی دیواریں، چھتیں، کھڑکی، دروازے اور دوسرے تعمیراتی سامان کی انڈسٹری وجود میں لائی جائے۔ تمام گھر ایک ہی نقشے کے مطابق بنانے کی شرط رکھی جائے۔ بڑے شہروں میں نئے گھر نہ بنائے جائیں۔ ہر ضلع کے غریب رہائشیوں کو ہی پلاٹ دیئے جائیں۔ نئی بستیوں میں کاٹیج انڈسٹری اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
(3) جہاں مناسب ہو وہاں پانچ کے بجائے چھ، سات یا آٹھ مرلے کے پلاٹ بنائے جائیں۔ ان پلاٹوں کے مکینوں کو اپنے گھروں میں روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ مثلاً دس، بیس دودھ دینے والے جانوروں کی فراہمی، چھوٹا سا ڈیری فارم بنانے کی آسانی اور حوصلہ افزائی۔ دیگر انڈسٹری مثلاً فرنیچر بنانے کی آسانی، پولٹری فارم اور فش فارم بنانے کی سہولت۔
پانچ لاکھ مکانات اور دس لاکھ پلاٹ ایک سال میں فراہم کئے جا سکتے ہیں، جب لوگوں کے پاس اپنا مکان ہوگا، تعلیم کے فروغ میں اضافہ ہوگا، ووٹ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، غربت میں کمی ہوگی، جرائم میںکمی ہوگی، لوگوں میں عزت نفس پیدا ہوگی۔ یہ ایک بہت بڑا اور حوصلہ افزا منصوبہ ہے، لیکن ڈیمز بنانے کا منصوبہ اس سے بڑا اور اس سے بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں اس قدر وسائل موجود ہیں کہ ایسے بڑے بڑے منصوبے کی کفالت کرسکتے ہیں۔ ضرورت دیانتداری اور صلاحیت کی ہے، بددیانت لوگوں اور لٹیروں کو پھانسی سمیت سخت ترین سزائوں سے دوچار کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر پاکستانی قوم اس قدر خونخوار نہیں ہے، ان حضرات سے دولت سے واپس لینے کے بعد عمر قید کی سزا بھی ان کیلئے کافی ہے۔ عیش و عشرت سے رہنے والے، رنگین محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے والے، شہد اور تیل پینے والے، جیل خانے کی سخت زندگی میں سدھر جائیں گے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ان سب معزز ڈاکو صاحبان کو سرکاری مہمان بنا کر جیلوں میں رکھا جائے۔ غریب، محروم عوام کو دس لاکھ گھر اور چالیس لاکھ پلاٹ دیئے جائیں۔ بڑے مکانات کے مالکان پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے اور یہ ٹیکس پچاس لاکھ غریب خانے بنانے پر خرچ ہو۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post