جپھی کا کمال

0

ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
پوری دنیا کے تیرہ کروڑ سے زائد سکھ کرتارپور راہداری کھولنے کے لئے کام کے آغاز پر جشن منا رہے ہیں اور انہیں منانا بھی چاہئے۔ وہ ستر برس سے اس لمحے کے انتظار میں تھے۔ ایک جپھی کے کمال سے یہ تالا کھلا ہے۔ سکھوں کے لئے یہ جپھی یادگار بن گئی ہے۔ ستر برس قبل بھی جب بٹوارہ ہو رہا تھا، خواب سے تعبیر میں ڈھلتے پاکستان کی طرف سے ایسی ہی جپھی کی دعوت سکھوں کو دی گئی تھی، لیکن افسوس اس وقت سکھوں میں نوجوت سنگھ سدھو جیسا کوئی رہنما موجود نہیں تھا، جو انگریزوں کا دبائو قبول کرنے کے بجائے ان کے سامنے کھڑا ہو جاتا، جو کانگریس کی ہندو قیادت کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے کے بجائے اپنی قوم کے لئے درست فیصلے کا انتخاب کرتا۔ اگر ستر برس قبل کی سکھ قیادت نے مسلمانوں کی جپھی کی دعوت قبول کر لی ہوتی تو آج سکھ قوم بہت بہتر حالت میں ہوتی۔ کرتار پور ہی نہیں، ان کے سارے مقدس مقامات ان کی پہنچ میں ہوتے، کیوں کہ سارے اہم مقدس مقامات پاکستان میں ہی ہیں۔
ہر قوم کی کچھ خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں، سکھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زیادہ چالاک اور عقل مند نہیں ہوتے، سادے اور بھولے لوگ ہیں، اس لئے بٹوارے کے وقت انہوں نے اس نکتے پر بھی نہیں سوچا کہ بھارت کے ساتھ رہنے سے تو وہ اپنے سارے مقدس مقامات سے دور ہو جائیں گے، سکھوں میں چالاکی نہیں ہے، لیکن انہیں قدرت نے بہادری کا وصف دیا ہے۔ دوسری طرف ہندو بنیا اپنی چالاکی کے لئے شہرت رکھتا ہے، بغل میں چھری اور منہ میں رام رام اس کی مذہبی پہچان ہے، بزدل اتنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ بزدلی کا عالمی دن منائے تو اسے ہندوئوں کے ساتھ منسوب کرنا چاہئے۔ ویسے سچی بات پوچھیں تو عقل مندی بہادری کے ساتھ اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ یہ دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ عقل مند ہر چیز کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، اس کے لئے کوئی کتنے ہی فائدے کی چیز کیوں نہ ہو، وہ اس میں نقصانات کے پہلو تلاش کرتا رہتا ہے، فیصلے ہچکچاہٹ کے ساتھ لیتا ہے، اسی لئے پنجابی کی کہاوت ہے ’’جہڑا سوچی پیا او کموں گیا‘‘ یعنی جو سوچ میں پڑ گیا وہ کسی بڑے کام سے تو گیا۔ چالاک انسان ہو یا قوم، وہ کتنی ہی کامیابیاں حاصل کرلے، وہ بہادر انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ دنیا بہادروں کے لئے بنی ہے اور انہیں ہی یاد بھی رکھتی ہے۔ بہادر شکست بھی کھا جائے تو امر ہو جاتا ہے اور بزدل اپنی چالاکی اور سازشوں کے ذریعے جیت بھی جائے تو تاریخ کے اوراق اسے پلٹ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ٹیپو سلطان ہیں۔ ایک بہادر حکمران اور سپہ سالار جسے عیار انگریز نے اپنی چالوں اور سازشوں کے ذریعے شکست تو دے دی، لیکن آج بھی لوگ ٹیپو سلطان اور ان کے اس قول کو یاد رکھتے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ٹیپو سلطان بھی اگر بہادر نہ ہوتے، تو وہ بھی برصغیر کے درجنوں راجوں، مہاراجوں اور ریاستوں کے والیوں کی طرح انگریز سے معاہدہ کرکے اپنی ریاست میں حکمرانی بچا سکتے تھے، لیکن انہوں نے عزت کا راستہ چنا۔
خیر بات ہو رہی تھی سکھ قوم کی، جو اپنی سادگی کے باعث بٹوارے کے وقت عیار ہندوئوں اور ہوشیار انگریزوں کے جال میں پھنس گئی۔ کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ پنڈت نہرو اور ان کے ساتھیوں نے اس وقت کی سکھ قیادت کو اپنے دام میں پھنسایا، لیکن یہ طے ہے کہ انگریز کی مدد کے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے، اگر انگریز نہ چاہتے تو سکھ ہندوئوں کے ساتھ بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ نہ کرتے۔ قائد اعظم نے انہیں پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی تھی، ان کے پاس آزاد سکھ ریاست کا آپشن بھی موجود تھا، بھر بھی انہوں نے بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو یہ عقل کا فیصلہ تو نہیں لگتا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ سکھوں کا سب کچھ پاکستان کے ساتھ ہے، سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب سے لے کر جائے وفات کرتار پور تک سب کچھ پاکستان کا حصہ بننے جا رہا تھا، پھر سکھوں کی بڑی تعداد مغربی پنجاب میں بھی آباد تھی، اس لئے بھی ان کا مفاد پاکستان کے ساتھ تھا، ان کی زبان پنجابی جو ان کی مقدس زبان بھی ہے، جس میں ان کی مذہبی کتابیں ہیں، انہیں بھی پاکستان میں ہی اہمیت مل سکتی تھی، کیوں کہ پاکستان کے بڑے صوبے کی زبان بھی پنجابی تھی۔ سکھوں کے تو شاعر بھی مسلمان پنجابی شاعر تھے۔ بابا بلھے شاہ سے لے کر حضرت میاں میر تک ان کے لئے مسلمانوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی اہم نہیں۔ حضرت میاں میر کو تو امرتسر مدعو کرکے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھوائی گئی تھی۔ سکھ فطری طور پر مسلمانوں کے قریب رہے ہیں۔ ہندوئوں کے لئے تو وہ باغی ہیں، کیوں کہ بابا گرونانک نے ہندو مذہب چھوڑ کر ہی سکھ مذہب کی بنیاد رکھی تھی، جس میں توحید پر زور دیا گیا تھا، وہ مسلمانوں کے کتنے قریب تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابا گرونانک معروف صوفی بہلول داناؒ سے ملنے خصوصی طور پر بغداد تک گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بابا گرونانک مسلمانوں میں بھی مقبول تھے۔ کرتار پور میں ان کی وفات کے حوالے سے سینہ بہ سینہ جو باتیں چلی آرہی ہیں اور کچھ کتابوں میں بھی ان کا تذکرہ ہے، ان کے مطابق بھی بابا گرونانک کی وفات پر مسلمان انہیں دفنانا چاہتے تھے، جبکہ سکھ اپنے مذہب کے مطابق رسومات ادا کرنا چاہتے تھے۔ جس سے بابا گرونانک کے مسلمانوں سے تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بابا گرونانک ہندو والدین کے گھر پیدا ہوکر مسلمانوں کے حامی تھے تو اس کی وجوہات تھیں، لیکن بٹوارے کے وقت کی سکھ قیادت نے غلطی کی، پاکستان کی طرف سے جپھی کی پیشکش قبول کرنے کے بجائے ہندوئوں کے جال میں پھنس گئی اور اس کی قیمت وہ ستر برس سے ادا کرتی آرہی ہے۔ سکھ قوم خصوصاً گزشتہ چار دہائیوں سے تو مشکل کا شکار ہے، بھارت کی ہندو قیادت ان کی شناخت مٹانے کے لئے بڑے منظم انداز میں کام کر رہی ہے، پہلے پنجاب کو تین ریاستوں میں تقسیم کیا، سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی، آپریشنز اور فسادات کے ذریعے ہزاروں سکھوں کو قتل کیا اور رہی سہی کسر پوری کرنے کے لئے وہاں شراب سستی اور عام کردی تاکہ سکھ نوجوان نشے کے اسیر ہو جائیں اور ہندوئوں کے مظالم اور بالادستی کی طرف ان کا دھیان نہ جائے۔
کرتارپور لانگا (راستہ) کھولنے کے لئے تقریب میں جو سکھ رہنما دنیا بھر سے آئے تھے، ان کے چہروں پر اپنی شناخت ختم ہونے کے حوالے سے تشویش واضح تھی، اچھی بات ہے کہ موجودہ دور کے سکھ اب بھارت کی سازشوں اور چالوں پر بات کرنے لگے ہیں، انہیں یہ احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ اگر وہ 1947ء میں مسلمانوں کی جپھی کی دعوت قبول کرلیتے تو آج وہ بہت اچھی حالت میں ہوتے، وہ ایک جپھی انہیں بہت سے جپھوں (مشکلات) سے نجات دلانے کا سبب بن جاتی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More