تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے جمعرات کو اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں وزیر اعظم نے کہا کہ یکساں تعلیمی نظام بنایا جائے گا۔ صحت کے شعبے میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ اور خیبر پختون کی طرح صحت کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک پورا سسٹم بنا رہے ہیں۔ ایک اتھارٹی بنا رہے ہیں کہ ہم نے غربت کیسے ختم کرنی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ بائیس سال سے وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے وعدہ کر رہے تھے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اب تک تین سو پچھترارب روپے کے جعلی اکائونٹس پکڑے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں قبضے کی زمینوں کو واگزار کرانے، معیشت کی بہتری، سیاحت کے فروغ، دوست ممالک سے ملنے والی امداد، بے گھروں کیلئے مکانات کی تعمیر، کفایت شعاری اپنانے سمیت مختلف موضوعات کا احاطہ کر کے اپنی حکومت کی کارکردگی اور آئندہ کے لائحہ عمل کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ وزارت خارجہ نے اپنی کارکردگی پر ایک الگ رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں امریکہ اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کو بطور خاص اجاگر کیا گیا ہے۔ جمعرات کے روز قومی اخبارات میں اشتہار شائع کر کے سو روزہ حکومتی کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس جہازی سائز کے اشتہار میں ایک طرف ’’ہم مصروف تھے‘‘ لکھا گیا۔ دوسری طرف اخباری تراشوں کی تصاویر تھیں، جن میں مختلف دعوئوں، وعدوں اور منصوبوں سے متعلق چھپنے والی خبروں کا انبار لگایا گیا تھا۔ مذکورہ اشتہار کا عوامی حلقوں میں خوب مذاق اڑایا گیا۔ خود تحریک انصاف کے حامیوں نے بھی اسے انتہائی بھونڈا طریقہ قرار دیا۔ اس حقیقت کو تسلیم کئے بنا چارہ نہیں کہ محض سو دن میں کوئی معجزہ رونما نہیں ہو سکتا کہ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ جائیں۔ ملک کے سارے قرضے اتر جائیں اور معیشت یکدم بہتر ہو جائے۔ مغربی ممالک میں اس دورانئے کو ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن کسی حکومت کی ترجیحات کے تعین اور مستقبل کے لائحہ عمل کو واضح کرنے کیلئے تین مہینے بہت ہوتے ہیں۔ اس دوران حکمرانوں کے ماضی کے وعدوں اور اعلانات کو عمل کی ترازو میں تول کر یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ بقیہ مدت حکومت میں وہ کیا تیر مار لیں گے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کافی مایوس کن نظر آتی ہے۔ ابتدائی سو دنوں کے دوران ہی عمران خان جب اپنی پالیسیوں پر مستقل مزاجی نہ دکھا سکے اور انہیں تنقیدکا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے حالات کے مطابق یوٹرن لینے کو کامیاب لیڈر کی نشانی قرار دیا۔ ملک کو درست سمت چلانے کیلئے سب سے پہلے قانون سازی کرنا پڑتی ہے۔ مگر افسوس کہ اس حوالے سے اب تک قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہی تشکیل نہیں دی جا سکیں۔ حالانکہ قانوناً وزیراعظم کے انتخاب کے ایک ماہ کے اندر اندر یہ کام ہونا چاہئے۔ ہر وزارت کے تحت ایک کمیٹی ہوتی ہے۔ اسی کمیٹی میں کسی مسئلے کو زیر بحث لا کر اس پر قانون سازی کیلئے بل پیش کیا جاتا ہے۔ اسمبلی میں پیش ہونے والے بل کو بھی اسی کمیٹی کے پاس بھیجا جاتا ہے تاکہ اس پر سیر حاصل بحث ہو سکے۔ پھر ان کمیٹیوں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ وزارت سے باز پرس کریں۔ مگر ابھی تک ایک کمیٹی بھی نہیں بنائی جا سکی۔ اسی سے حکومتی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اسمبلی اجلاسوں کے کئی سیشن ہو چکے اور ایک دن کے اجلاس پر قومی خزانے سے پونے تین کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جب قانون سازی ہی نہیں ہوگی تو عمل ددرآمد کا سوال ہی فضول ہے۔ شاید عمران خان حکومت کو بھی پارلیمانی اصولوں سے ہٹ کر کرکٹ ٹیم کی طرح چلانا چاہتے ہیں، جو کہ ممکن نہیں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس حوالے سے مزید وقت اور عوام کا پیسہ ضائع نہ کرے۔ حکومت کو سب سے بڑا چیلنج معیشت کا درپیش ہے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ عمران خان کی ٹیم نے اس حوالے سے ہوم ورک تیار کرلیا ہوگا اور میدان میں اترتے ہی اس کے مطابق اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے بھی کشکول اٹھا کر صدائے گدائی لگانے کو اس مسئلے کا حل سمجھا۔ اگرچہ وزیر خزانہ اسد عمر معیشت میں بہتری کے دعوے کر رہے ہیں، مگر زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جمعہ کے روز پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر نے ایک اور جست لگائی اور ایک سو بیالیس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ایک دن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں دس روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ڈالر کی قدر میں ایک ہی روز ہونے والا یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ جو کہ معیشت کی ’’بہتری‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی بہتری کا اندازہ عوام کی حالت زار اور اشیائے ضرورت کی سستے داموں دستیابی سے لگایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے سو دنوں میں کسی چیز کی قیمت میں کمی کیا ہوتی، ہر چیز کی قیمت کو گویا پر لگ گئے ہیں۔ جبکہ تجاوزات کے نام پر ہزاروں لوگوں کو روزگار سے محروم کیا جا چکا ہے اور نہ جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا۔ ملک کی لوٹی ہوئی بے پناہ دولت واپس لانے کیلئے ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کے بجائے تنکوں کا سہارا لیا جائے تو نتائج ایسے ہی برآمد ہوتے ہیں۔ کفایت شعاری اور سادہ طرز زندگی اختیار کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا، اس پر بھی عمل درآمد کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ وزرا و مشیروں کا وہی شاہانہ انداز ہے، جو سابقہ ادوار میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ چھ ماہ تک غیر ملکی دورے نہ کرنے کا وزیر اعظم کا اعلان بھی ہوا میں اڑ گیا۔ عمران خان اب تک نصف درجن ممالک کی یاترا کر چکے ہیں اور وہ بھی خصوصی سرکاری طیارے میں۔ حالانکہ انہوں نے خود فرمایا تھا کہ سفر کمرشل پروازوں میں کروں گا۔ جبکہ وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز سمیت سرکاری عمارتوں کے حوالے سے قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا، اس پر بھی کسی پیشرفت کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ان تضادات کے ہوتے ہوئے عوام مزید دعدوں اور دعوئوں پر کس بنیاد پر یقین کرلیں؟ ہنی مون پیریڈ گزر گیا۔ اب حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ نقصانات کی تلافی اور آئندہ کیلئے کمر کسنا ہوگی۔ ورنہ پانچ سال کی مدت بھی ایسے ہی گزر جائے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post