مہنگے ڈالر نے معیشت کی چولیں ہلادیں

0

کراچی/اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/خبرایجنسیاں) مہنگے ڈالر نے معیشت کی چولیں ہلادیں۔ انٹر بینک میں ڈالر دوران ٹریڈنگ تاریخ کی بلند ترین سطح 142 روپے کو چھو گیا، مگر مرکزی بینک کی مداخلت سے ڈالر 138 روپے 50 پیسے کا ہوگیا۔ کاروباری ہفتے کے آخری روز انٹر بینک میں ڈالر 8 روپے اضافے سے تاریخ کی بلند ترین سطح 142 روپے پر ٹریڈ کرنے لگا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رحجان رہا۔ 100 انڈیکس میں 89 پوائنٹس کی کمی کے بعد 40 ہزار 540 پر کاروبار ہوا۔ ڈالر کی قدر میں اضافے اور روپے کی قدر گرنے سے سونے کی قیمت میں فی تولہ ایک ہزار روپے تاریخ کا بلند ترین اضافہ ہوا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں سونےکی قدر 3 ڈالر کم ہو کر ایک ہزار 122 ڈالر فی اونس ہوگئی، جبکہ درآمدات کنندگان نے کھانے پینے اور گھریلو استعمال کی مختلف اشیا کے دام بڑھنے کا عندیا دیا ہے۔ خشک دودھ، کھانا پکانے کا تیل، پتی اور دالیں 5 سے 10 روپے کلو تک مہنگی ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، موجودہ حکومت کی مدت کے 3 ماہ کے دوران اب تک ڈالر کی قدر میں 18روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثنا وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو تسلیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ملک میں سرمایہ کاری کرنے والوں کیلئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں اور وہ قدم اٹھا رہے ہیں، جس سے مستقبل میں ڈالر کی کمی نہیں ہوگی۔ ادھر اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کردیا۔ ڈیڑھ فیصد اضافے سے شرح سود کئی برسوں بعد دہرے ہندسے میں داخل ہوتے ہوئے 10 فیصد تک جاپہنچی۔ ذرائع کے مطابق ڈالر کی بڑھتی قیمت کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں سے رابطے کر کے صرف حقیقی خریداروں کو ڈالر فروخت کرنے کے احکامات جاری کیے، جس سے ڈالر 142 روپے سے نیچے آکر 138 روپے 50 پیسے کا ہوگیا، مگر ڈالر جمعرات کے حساب سے اب بھی ساڑے 4 روپے مہنگا ہوچکا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 36فیصد اضافہ ہوچکا ہے، جبکہ موجودہ حکومت کی مدت کے 3 ماہ کے دوران اب تک ڈالر کی قدر میں 18روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ انٹر بینک میں ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کی قدر گرنے کے باعث قرضوں میں 760 ارب روپے کا اضافہ بھی ہوگیا۔ یاد رہے کہ کرنٹ اکانٹ خسارے کے باعث روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ڈالر تاریخ میں پہلی مرتبہ 142روپے کی سطح پر پہنچا۔ انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بدترین کمی کے بعد امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ جمعہ کو مارکیٹ کا آغاز ہوا تو اوپن بینک میں ڈالر کی قیمت میں اچانک 8 روپے اضافہ ہوا اور روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر 142 روپے تک جا پہنچا، جبکہ کچھ بینکوں میں ڈالر مزید 2 روپے اضافے سے 144 روپے تک ٹریڈ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اوپن مارکیٹ میں بھی دیکھی جارہی ہے اور ایک ڈالر 138 روپے میں خرید، جبکہ 144 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رحجان رہا۔ 100 انڈیکس میں 89 پوائنٹس کی کمی کے بعد 40 ہزار 540 پر کاروبار ہوا۔ ڈالر کی قدر میں اضافے اور روپے کی بےقدرسے سونے کی قیمت میں فی تولہ ایک ہزار روپے تاریخ کا بلند ترین اضافہ ہوا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں سونےکی قدر 3 ڈالر کم ہوکر ایک ہزار 122 ڈالر فی اونس ہوگئی۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ بڑھتی مہنگائی، بلند مالیاتی خسارے اور زرمبادلہ کے کم ذخائر کے سبب پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکلات تاحال برقرار ہیں۔ بینک کے مطابق مالی سال 19-2018 کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 5.9 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ گزشتہ مالی سال اسی دورانیے میں یہ شرح 3.5 فیصد تھی۔ اعلامیے میں امید ظاہر کی گئی کہ دوسری ششماہی میں نجی و سرکاری ذرائع سے بیرونی رقوم آنے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، جو زرمبادلہ کے ذخائر پر موجود دباؤ میں کمی لانے میں معاون ثابت ہوگا۔ دریں اثنا مانیٹری پالیسی کے حوالےسے اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ستمبر 2018 میں اعلان کردہ مالیاتی پالیسی کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے تھے اور تجارتی خسارے میں بہتری بھی نظر آئی، لیکن بڑھتی مہنگائی، بلند مالیاتی خسارے اور زرمبادلہ کے کم ذخائر کے سبب پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکلات تاحال برقرار ہیں۔ بینک کے مطابق مالی سال 19-2018 کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 5.9 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ گزشتہ مالی سال اسی دورانیے میں یہ شرح 3.5 فیصد تھی۔ اعلامیے میں امید ظاہر کی گئی کہ دوسری ششماہی میں نجی و سرکاری ذرائع سے بیرونی رقوم آنے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، جو زرمبادلہ کے ذخائر پر موجود دباؤ میں کمی لانے میں معاون ثابت ہوگا۔ بیان میں کہا گیا کہ زرعی پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی کے مسلسل دباؤ اور حقیقی شرح سود میں کمی سمیت دیگر عوامل معیشت میں استحکام کے لیے مزید کوششوں کا تقاضہ کرتے ہیں اور اسی وجہ سے شرح سود 150 بیسز پوائنٹس اضافے سے 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ادھر اسلام آباد میں تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2 جوہری ریاستیں کسی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں، امن ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ بھارت ابھی تک اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کررہا، کچھ بھی ناممکن نہیں، مسئلہ کشمیر بھی حل ہو سکتا ہے۔ ذہن میں تبدیلی کی ضرورت ہے، جو لوگ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں، کیونکہ جب سرمایہ کاری ہوتی ہے تو نوکریاں ملتی ہیں اور ملک میں ڈالر آتے ہیں۔ صبح سے کالیں آرہی ہیں، ڈالر اتنا بڑھ گیا، لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ روپے کی قدر نیچے جانے کی وجہ ڈالر کی کمی ہے، لیکن ڈالر بڑھانے کا طریقہ سرمایہ کاری ہے اور اس شراکت داری سے 90 کروڑ ڈالر آئیں گے، جبکہ مزید سرمایہ کاری سے ڈالر کی کمی کم ہوجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ترسیلات زر کے لیے آسانیاں کردی ہیں اور قانونی طریقے سے پیسے بھیجنے سے 10 ارب ڈالر پاکستان میں آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، جسے ہم روکنے لگے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ گھبرائیں نہیں، یہ مشکل وقت ہے، انشا اللہ روپے کی قدر بہتر ہوگی۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد/کراچی/پشاور (محمد فیضان/مانیٹرنگ ڈیسک/خبرایجنسیاں) ڈالر کی قیمت میں اضافے سے 760 ارب روپے قرضوں کا بوجھ بڑھا ہے۔ دوسری جانب حکو مت کے پاس زرمبادلہ کے نیٹ ذخا ئر ساڑھے 3 بلین ڈالر رہ گئے، جو 3 ماہ کی برآمدات کے لیے بھی ناکا فی ہیں۔ معیشت میں بہتری لانے اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط نہ ماننے کے حکومتی دعوے دھرے رہ گئے، موجودہ حکومت کے 102دنوں میں ملک پر قرضوں کا بوجھ 1450ارب روپے بڑھ گیا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری بن گیا۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے ان کی شرائط پر من وعن عمل شروع کر دیا ہے، مخدوش معاشی صورتحال اور ادائیگیوں میں توازن رکھنے کے لیے حکومت نے جنوری کے بجائے آئندہ ہفتے سے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ مذا کرات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرا ئع کے مطابق حکومت کے پاس قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کو ئی دوسرا را ستہ نہیں، اس لیے آئی ایم ایف کے کہنے پر ڈالر مہنگا کیا جا رہا ہے، آئندہ دنوں میں ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 145 سے 150 کے درمیان رکھنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ڈا لر مہنگا ہونے اور شرح سود میں اضافے سے بے روزگاری بڑھے گی۔ 5 سے 6 لا کھ ملازمتیں متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ افرا ط زر ڈبل ڈیجیٹ پر جائے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ حکومت کو شروع کے چند دنوں میں ہی کر لینا چاہیئے تھا۔ اب آئی ایم ایف سے ممکنہ طور پر نیا قرض لینے کے پیش نظر شرح سود میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ شرح سود میں اضافے سے صنعتی سیکٹر براہ راست متاثر ہوگا، بینکوں سے مہنگا قرض ملنے کے باعث کاروباری لاگت مزید بڑھ جائے گئی، جبکہ عوام کو بھی مہنگائی کا تحفہ ملے گا۔ حکومت پر قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ برقرار ہے اور خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔ حکومت کے پاس زر مبادلہ کے وہی ذخائر ہیں، جو امداد کی مد میں سعودی عرب سے ملے تھے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کا اثر پیٹرولیم مصنوعات پر ہوگا اور مہنگائی میں مزید اضافہ پاکستان کو اپنی درآمدات میں کمی لانی ہوگی، لگژری آئٹم پر پابندی لگانی ہوگی۔ سابق سیکریٹری خزانہ ڈا کٹر وقار مسعود نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ موجودہ صورتحال معیشیت کی مخدوش صورتحال کی نشاندہی کررہی ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس ابتدا میں ہی چلے جانا چا ہیئے تھا۔ مجھے حیرانگی ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ شروع میں کیوں نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے سرمایہ کار پر بھی اثر پڑے گا، مہنگائی بڑھنے سے عام آدمی شدید متاثر ہوگا۔ آئی ایم ایف کے بغیر صورتحال بہتر نہیں ہو گی، حکومت اپنا ذہن صا ف کرلے، معیشت کی صورتحال یہ کہ کل کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ یہ کیفیت زہر قاتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے دونوں فیصلوں سے بجٹ پر بوجھ بڑھ گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ اب حکومت کے پاس 2 راستے ہیں یا تو وہ ٹیکسز بڑھائے یا پھر آئی ایم ایف کے پاس جائے۔ حکومت ٹیکسز تو نہیں بڑھا سکتی، لیکن وہ اب آئی ایم ایف کے پاس جائے گی۔ سابق وزیر خزانہ ڈا کٹر عبدا لحفیظ پاشا نے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے معاملے پر یوٹرن لیتی رہی ہے، لیکن انہیں آئی ایم ایف کی چھتری کا سایہ لینا پڑے گا، گزشتہ 4 ماہ کے دوران تجارتی خسارے میں ساڑھے 7 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کا ری آدھی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جلد آئی ایم ایف سے بات چیت اور قرضہ لینے کا فیصلہ نہ کیا تو دوسرے وسائل سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عوام سے چیزیں نہ چھپائے اور آئی ایم ایف سے رشتہ قائم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں وضاحت کرے۔ پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ 100دن مکمل ہوتے ہی ڈالر کی اچانک لمبی چھلانگ سے نہ صرف اسٹاک ایکسچینج متاثر ہوگا، بلکہ بیرونی قرضوں میں تقریباً700ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔ ڈالر کے ریٹ میں 8روپے اضافہ مہنگائی میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر رہنما اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کے سینئر لیڈر سینیٹر الیاس احمد بلور نے انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی ملک کی تاریخ میں بلند ترین سطح 142 روپے تک پہنچنے کو تحریک انصاف کی حکومت کا ایک اور یوٹرن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے کل جو جھوٹ بولا تھا، وہ سامنے آگیا ہے اور ڈالر کی قیمت میں آج ہونیوالا اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں اور انکےساتھ معاہدہ کرلیا ہے۔ معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ڈالر اور روپے کی قدر میں توازن لانے پر زور دیا تھا اور بظاہر لگ رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ڈالر میں اضافے کو مینج کیا جارہا ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 150 روپے تک گر سکتی ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ روپے کی قدر میں اچانک کمی نے مارکیٹ میں بے چینی کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ روپے کی قدر میں یہ کمی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات کانتیجہ ہوسکتی ہے۔ ظفر پراچہ نے مطالبہ کیا کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی کا باضابطہ اعلان کرے، تاکہ کرنسی ڈیلر کے درمیان اس ہیجانی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔ احسن محنتی کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو کہا گیا ہے کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے روپے کی قدرکم کی جائے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر عمل کر رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More