عباس ثاقب
مانک کیلئے میری بات اور انداز غیر متوقع ہی نہیں، غیرمعمولی بھی رہاہوگا۔ ایسا لگا جیسے وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوگیا ہو۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ایک بار پھر میرا میزان کرنا چاہا، پھر اس کی نظریں جھک گئیں اور کھسیانے لہجے میں معذرت کرکے واپس گھر کے اندرونی حصے میں غائب ہوگیا۔ اس ابتدائی کامیابی پر میں نے دل ہی میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا۔
مجھے لگا کہ میرے اس انداز نے رندھیر سنگھ کو بھی مرعوب کردیا ہے۔ اس نے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تابع داری سے مجھے نشست گاہ میں بچھے صوفے پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ کچھ دیر مانک مناسب لباس میں واپس لوٹ آیا۔ اس کے چہرے پر عجب تناؤ جھلک رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو خبردار کیا کہ اب اس شخص کو محتاط انداز میں سنبھالنا پڑے گا ورنہ بنا بنایا کام بگڑ سکتا ہے۔ اس دوران رندھیر شاید مانک کے اشارے پر وہاں سے گھر کے کسی اور گوشے میں چلا گیا تھا۔ میں نے مانک کے بولنے سے پہلے خود گفتگو کی ابتداکی ’’مانک جی، تم کو میری بات بری لگی ہو تو معذرت چاہتاہوں۔ لیکن میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی مجھے سڑک چھاپ عیاش سمجھ کر برتاؤ کرے۔ میں یورپ میں پڑھا ہوں جہاں عورت اور مرد کا باہمی رضامندی سے تعلق کوئی پاپ نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ اس سے گریز غیر فطری بات سمجھی جاتی ہے۔ انڈیا واپس لوٹا تو میرے پتا نے بھی بس اتنی پابندی لگائی کہ بازار کی غلاظت سے دامن بچانا ہے، تم میری بات سمجھ رہے ہو ناں؟‘‘
میری بات غور سے سنتا مانک میرا سوال سن کر چونکا اور پھر اثبات میں گردن ہلائی۔ میں نے اپنی بات آگے بڑھائی ’’یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ بٹوارے سے پہلے راجے، مہاراجے اور نواب اپنے لیے بیگمات کا حرم رکھتے تھے، نئے زمانے میں بھی یہ روایت قائم ہے اور بڑے رئیسوں میں بھاری معاوضے پر حاصل کردہ ایک یا زائد غیر قانونی بیویوں پر مشتمل حرم رکھنے کا رواج عام ہے، جنھیں ہمارے ہاں رکھیل کہا جاتا ہے۔‘‘
میں نے اپنی باتوں کی تاثیر جانچنے کیلئے مانک کے چہرے کا بغور جائزہ لیا۔ وہ کسی معمول کی طرح منہ پھاڑے میری باتیں سن رہا تھا۔ میں نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھایا ’’میرا فی الحال شادی کے بندھن میں پھنسنے کا کوئی ارادہ نہیں، جبکہ مجھے اپنی فطری خواہشات کی تسکین بھی چاہیے۔ تو میرے پتا نے مجھے کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ میں اپنے لیے عارضی یا طویل مدتی بنیاد پر جتنی چاہے رکھیل عورتوں کا انتخاب کرسکتا ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک میں زندگی کا بڑا حصہ گزارنے کی وجہ سے میرا ذوق جمال کچھ زیادہ ہی بلند ہوچکا ہے اور بہت کم مقامی عورتیں میرے معیار پر پوری اترتی ہیں۔‘‘
مانک کے چہرے پر ابھرتے جوش کے دبے دبے جذبات دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ میری گفتگو صحیح رخ پر آگے بڑھ رہی ہے۔ لہٰذا میں نے اصل موضوع پر آتے ہوئے کہا ’’گزشتہ ماہ بمبئی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے میری ملاقات ہوئی اور محض اتفاقاً اس سے خاصی بے تکلفی سے، تفصیلاً اس معاملے، بلکہ مسئلے پر بات کرنے کا موقع ملا۔ اسی نے مجھے تمھارے پاس موجود کشمیری لڑکیوں کے بارے بتایا اور ان کے حسن و جمال کی اتنی تعریف کی کہ میں بے تاب ہوگیا اور دلّی واپس لوٹنے کے بعد بھی میرے ذہن پر پٹیالے آنے اور ان اپسراؤں کو حاصل کرنے کا خیال چھایا رہا۔‘‘
مانک کا اشتیاق بڑھانے کیلئے میں نے جان بوجھ کر توقف کیا۔ میری توقع کے عین مطابق اس نے بے تابی سے کہا ’’اوہ، تو آپ خاص طور پر اس مقصد کیلئے یہاں آئے ہیں؟‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا ’’ ہاں، میں تو حسن کا پجاری ہوں، مجھے کسی اور پوجا سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ تمھارے انتظار کے یہ دو دن میں نے بڑی بے تابی سے گزارے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ مجھے جلد از جلد ان تینوں کشمیری مٹیاروں سے ملاؤ تاکہ مجھے اطمینان ہو کہ میں نے خوا مخواہ دھکے نہیں کھائے ہیں، سودے بازی بعد میں ہوتی رہے گی۔‘‘
اچانک مجھے اس کے چہرے کے تاثرات میں کچھ بدلاؤ محسوس ہوا جس کی وجہ میں اس وقت سمجھنے سے قاصر رہا۔ اس نے قدرے ہچکچاہٹ کے بعد کہا ’’اگر آپ اپنے بارے میں پہلے ہی سب کچھ نہ بتاچکے ہوتے تو میں پوچھتا کہ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ان لڑکیوں کے بدلے کتنی بھاری رقم مانگی جائے گی؟ لیکن آپ سے صرف پوچھوں گا کہ کیا آپ ان میں سے کسی ایک کو پسندکرکے…‘‘
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’یار تم مجھے ان سے ملاؤ تو سہی، اس کے بعد ہی میں کچھ فیصلہ کرسکتاہوں۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی بھی میرے معیار پر پوری نہ اترے، ہوسکتا ہے ایک ، دو یا تینوں پسند آجائیں۔ فکر نہ کرو، میں تمھیں تینوں کی منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوں۔‘‘
اچانک اس کا رنگ پھیکا پڑتا محسوس ہوا۔ اس نے ہچکچاتے، اٹکتے لہجے میں کہا ’’لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ان میں سے اب دو ہی لڑکیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ تیسری کیلئے معذرت۔‘‘
اس کی بات سن کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ کیا میں نے یہاں تک پہنچنے میں بہت دیر کردی؟ کیا ان مظلوم بچیوں میں سے کسی ایک کی زندگی پہلے ہی برباد ہوچکی ہے؟ کہیں یہ ستم بمبئی سے میرے یہاں تک پہنچنے اور سرداروں کی مہمان نوازی سے لطف اٹھانے کے دوران تو رونما نہیں ہوا؟ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭