ڈاکٹر عبد العزیز پٹھان
-1 محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
-2 بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب۔
-3 بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خزیمہ۔
-4 بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
-5 بن اود بن مقوم بن ناحور بن تیرح بن یعرب بن یشحب۔
-6 بن نابت بن اسماعیل علیہ السلام۔
-7 بن ابراہیم علیہ السلام بن تارح بن ناحور بن ساروح۔
-8 بن راعو بن فالخ بن عیبر بن شالخ۔
-9 بن ارفخغشند بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ۔
-10 بن اخنوع بن برو بن مہلیل بن قنیل۔
-11 بن یانش بن شیث بن آدم علیہما السلام (ماخوذ از ابن ہشام صفحہ نمبر 23)
اولاد اسماعیل اور ان کی والدہ:
بقول ابن ہشام کے مطابق حضرت اسماعیلؑ بن ابراہیمؑ کے بارہ بیٹے تھے۔
-1 ثابت سب سے بڑا تھا۔ -2 قیدر۔ -3 اذیل۔ -4 منشا۔ -5 سمخ۔ -6 ہاشی۔ -7ونا۔ -8اذر۔ -9 ظیما۔ -10نطورا۔ -11نیش۔ -12قیذما۔
ان سب لڑکوں کی ماں مضاض بن عمرو کی بیٹی تھیں۔ کہتے ہیں کہ مضاض اور جرہم دونوں قحطان کے بیٹے تھے۔ قحطان تمام یمن والوں کا جد اعلیٰ تھا۔ سب کا نسب اسی سے جاملتا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے کہتے سنا کہ حضرت اسماعیلؑ نے 132 سال کی عمر پائی اور جب انتقال ہوا تو آپؑ الحجر میں اپنی والدہ حاجرہؑ کے پہلو میں دفن کئے گئے۔
اصلی اور کل عرب تمام کے تمام اسماعیلؑ اور قحطان ہی کی اولاد ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے عدنان میں سے تمام قبیلے متفرق ہوئے۔ عدنان سے 2 اشخاص پیدا ہوئے۔ -1 معد بن عدنان اور دوسرا بیٹا عک بن عدنان پیدا ہوئے۔
٭ قبیلہ عک: زیادہ اثرورسوخ کا حاصل ہو گیا، کیونکہ عک بن عدنان نے یمن کے اشعرین میں شادی کی اور یہیں رہنے لگا اور یوں دونوں خاندان ایک ہو گئے۔ بنی عک بن عدنان ہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے غسان کا لقب اختیار کیا۔ حتیٰ کہ وہ چاروں طرف پھیل گئے۔
معد بن عدنان: ابن اسحاق کے مطابق معد بن عدنان کے چار بیٹے ہوئے۔ نام درج ذیل ہیں۔ -1 نزار۔ -2 قضاعہ۔ -3 قنص۔ -4 سبا جس کو عبد شمس بھی کہتے ہیں، وجہ اس کی یہ ہے اس نے سب سے پہلے عربوں میں ابن یعرب بن یشحب بن قحطان کو گرفتار کیا تھا۔
نبی مہربانؐ کے نسب پر تحقیق بھی بہت ہوئی ہے اور سیرت نگاروں نے ہر ہر جگہ جا کر یا تحقیق کر کے نسب مبارک پر کلام کیا ہے۔ ہم نے مندرجہ بالا جو نسب پاک تحریر کیا ہے، وہ سیرت کی ابتدائی 2 تحقیقی کتابوں یعنی ابن اسحاق اور ابن ہشام سے ماخوذ ہے، لیکن مولانا صفی الرحمان صاحب مدظلہ علیہ نے اپنی رابطہ عالم اسلامی کی ایوارڈ یافتہ کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ میں نبی پاکؐ کے نسب میں اختلاف کو بھی ضبط تحریر کیا ہے۔ یعنی عدنان تک تو وہی نام آتے ہیں، جو ابن ہشام نے تحریر کئے ہیں، لیکن ’’الرحیق المختوم‘‘ کی تحقیق کے مطابق عدنان کے بعد عدنان بن اود بن ہمیسع بن سلاحان بن عوص بن بوز بن قموال بن ابئی بن عوام بن ناشد بن حزاہ بن یلداس بن یدلاف بن تابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخو بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبرین یثربی بن یحزن بن ملیحن بن ارعون بن عیض بن دلشان بن عیصر بن افناد بن ایہام بن مقصر بن ناحث بن ذاوح بن سمی بن مزی بن عوزہ بن عزام بن قیدار بن اسماعیل بن ابراہیمؑ۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت آدمؑ تک تسیرا باب باندھا ہے، اس تیسرے باب میں مولانا صفی الرحمان صاحب نے درجہ ذیل نام نسب پاکؐ میں داخل کئے ہیں:
ابراہیم بن تارہ (آزر) بن ناحور بن ساروغ بن راعو بن فالخ بن عیبر بن شالخ بن ارفخشند بن سام بن نوح بن لامک بن متوشلخ بن اخنوع (ادریسؑ) بن پرد بن مہلئیل بن قینان بن آنوش بن شیث بن آدم علیہ السلام۔ (حوالہ: الرحیق المختوم و رحمت العالمین صفحہ 75)
حضرت عبداللطیف بن ربیہؓ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگ نبی اکرمؐ کے پاس آئے اور کہا: اے رسول مہربان! ہم آپ کی قوم سے عجیب قسم کی باتیں سنتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ آپ کی مثال کوڑی سے اگی ہوئی کھجور جیسی ہے، حتیٰ کہ خاندان کا شمار اشراف قریش میں سے نہیں ہے۔ رسول اقدسؐ نے یہ سن کر فرمایا: اس سے پہلے کبھی اپنا نسب و حسب آپ نے بیان نہیں کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: لوگوں میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ خدا کے رسولؐ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ سنو خدا نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کے بہترین گروہ میں بنایا، پھر ان کے قبیلے بنائے تو مجھے ان کے بہترین قبیلے میں بنایا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے ان سب سے بہترین ارفع و اعلیٰ گھرانے میں رکھا، سو میں گھرانے کے حساب سے تم سب سے بہتر ہوں۔ (حوالہ: حیات طبیہ و مسند احمد ص:38)
خدا عزوجل اپنے انبیاء کو معاشرے کے معزز ترین گھرانوں میں پیدا فرماتا ہے، یہ معزز گھرانے پھر انبیاء کی بدولت عظیم ترین خاندان شمار ہوتے ہیں، جن کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ حضور اقدسؐ کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ ہیں۔ آپؐ کے دادا جناب عبد المطلب اہل قریش کے درمیان بہت معزز اور محترم شخصیت تھے۔ خدا نے ان کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔
عبدالمطلب کو حق تعالیٰ نے ایک خاص رعب عطا فرمایا تھا کہ ان کی مجلس میں ان کی گفتگو کے دوران خاموشی چھا جاتی تھی۔ سقایہ اور رفادہ بنو ہاشم کے پاس تھا۔ کافی عرصہ قبل چاہ زم زم مرور ایام سے بند ہو گیا تھا۔ اس کا محل وقوع بھی صحیح طرح سے معلوم نہ ہوپا رہا تھا۔ حق تعالیٰ نے عبدالمطلب کے دل میں یہ بات ڈالی کہ چاہ زم زم کو دوبارہ کھودا جائے۔ کئی دن رات وہ سرگرداں رہے، آخر رب تعالیٰ نے انہیں وہ مقام دکھا دیا جہاں سے یہ چشمہ صافی پھوٹتا ہے۔ یہ ان کا بڑا تاریخی کارنامہ ہے کہ انہوں نے چاہ زم زم دوبارہ کھودا اور وہ آج تک جاری و ساری ہے۔
چاہ زم زم کی کھدائی کے حوالے سے تمام سیرت نگاروں نے بہت دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں۔ ایک واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ جب عبدالمطلب نے چاہ زم زم کی کھدائی کا کام شروع کیا تو قریش کے قبائل اس میں آڑے آگئے۔ اس پر انہوں نے منت مانی کہ اگر خدا تعالیٰ انہیں دس بیٹے عطا فرمائے اور وہ جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں، تو وہ اپنی قوت کے بل بوتے پر چاہ زم زم کو کھودیں گے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے یہ منت مانی تھی کہ حق تعالیٰ نے دس بیٹے عطا فرمائے تو وہ ایک بیٹے کو اس کے نام پر قربان کر دیں گے۔ خدا نے ان کی یہ آرزو پوری کی اور دس بیٹے عطا فرمائے (دو بیٹے ان سے کئی سال بعد پیدا ہوئے، یوں کل بیٹے بارہ تھے)۔ (حوالہ: حبیب کبریاؐ صفحہ 3) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post