دیر آید درست آید (پہلا حصہ)

0

کئی ہفتوں سے اپنا دلبرکراچی، کہیں سے موہنجودڑو، کہیں سے ہڑپہ تو کہیں سے منصورہ (برہمن آباد) کی منظر کشی کرتا نظر آرہا ہے۔ عدلیہ کے حکم پر شہر کی سابقہ حالت کو بحال اور قابضین کو بے حال کرنے کا کام زوروں پر ہے۔ راستے اور گزرگاہوں پر قابض مافیا سے رعایت نہیں ہونی چاہئے کہ ان راستوں اور گزرگاہوں پرچلنا اور ٹریفک دوڑانا عوام کا بنیادی حق ہے اور کسی بھی جمہوری مملکت میں عوام کا یہ حق سلب نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے کراچی میں ہر سیاسی حکومت اور پارٹی اپنے ووٹ بینک کے لئے اس شہر کے چہرے کو مسخ کرکے اپنی سیاسی دکان چمکاتی رہی اور شہر کسی کباڑی کی دکان کا منظر پیش کرتا رہا۔ بالآخر کراچی کی شاہراہوں کو کھولنے اور اس کی خوبصورتی بحال کرنے کے لئے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہی میدان عمل میں اترنا پڑا۔ یہ کام عدلیہ ہی کرسکتی تھی، کوئی سیاسی جماعت یا حکومت اس کام کی اہل اپنے کرتوتوں کے سبب نہیں رہی۔ چند ہفتے قبل راقم نے بھی کراچی پولیس کے حوالے سے لکھے گئے اپنے چند کالموں میں کراچی کی سڑکوں، چوراہوں اور مارکیٹوں میںمادر پدر آزاد قبضوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایسے بہت سے مقامات کی نشاندہی کی تھی، جن میں سے کچھ آج محکمہ توڑ پھوڑ (انسداد تجاوزات) کی زد پر ہیں۔ چلیں، دیر آید درست آید۔
اس میں دو رائے نہیں کہ قابضین نے شہر کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ مادر پدر آزادیوں کے نتائج اب قابضین اور ان کے ہمدردوں کو خون کے آنسو رلا رہے ہیں۔ رونے، پیٹنے اور دہائیاں دینے والے یاد رکھیں املاک یا زمین پر قبضہ چالیس روزہ ہو یا چالیس سالہ قبضہ، قبضہ ہی ہوتا ہے اور پرانا ہونے کے باوجود بھی جائز نہیں ہو جاتا۔ جو قابضین اب واویلا مچا رہے ہیں اور جن کی چیخیں نکل پڑی ہیں، کیا انہیں ان زمینوں پر قابض ہوتے وقت ہوش کے ناخن نہیں لینے چاہئے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟
وہ لوگ جو آج دھاڑیں مار مار کر رو رہے اور کہہ رہے ہیں کہ ان کا اتنے کروڑوں کا نقصان ہوگیا کیا وہ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا اور بتانا پسند کریں گے کہ انہوں نے گزشتہ چالیس پچاس سال کے دوران ان قبضوں کی دکانوں اور زمینوںسے کیا فوائد ہیں جو حاصل نہیں کئے؟ راقم کے ایک دوست کے قریبی عزیز کی دکان بھی حالیہ توڑ پھوڑ کی نذر ہوئی۔ موصوف نے چالیس سالہ ایسے ہی منافع کو خاطر میں لائے بنا ہمارے دوست سے لاکھوں کے نقصان کا شکوا کیا تو ہمارے دوست تلملا اٹھے اور کسی لگی لپٹی کے بنا صاف کہہ دیا: لڈن میاں! کچھ تو خدا کا خوف کریں، آپ اسی قبضے کی دکان کی کمائی سے دو کثیر المنزلہ عمارتوں کے مالک بنے، اسی کمائی سے آپ نے اپنے ہاتھ کالے اور بچے بچیوں کے پیلے بھی کئے، بھلا نقصان کیسا؟
سرکاری زمینوں پر برسوں سے قابض افراد کو خود بھی احساس تھا کہ ان کا طرز عمل غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت
سے لوگوں نے سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد از خود ناجائز قبضوں اور دکانوں کو ختم کر دیا۔ جنہوں نے نہیں کیا، وہاں ریاستی ہتھوڑا چل گیا اور چل رہا ہے۔ رہائشی علاقوں میں بھی لوگ اپنے مکانات کے بڑھائے ہوئے غیر قانونی حصوں کو خود ڈھا رہے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بیشتر قابضین اب بھی ڈھیٹ بنے منتظر ہیں کہ شاید جوڑ توڑ کی کوئی سبیل نکل آئے اور ان کے قبضے جوں کے توں برقرار رہیں۔ یہ سوچ اس رویئے کی عکاس ہے کہ سابقہ ادوار میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ کے ایم سی، کے ڈی اے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے راشی افسران بھاری نذرانوں کے عوض قبضہ مافیا کے لئے راستے نکالتے رہے۔ اب بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں، جہاںسے متواتر یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ وہاں قابضین کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو ایک غیر جانبدار جوڈیشل ناظر کمیٹی تشکیل دینی چاہئے، جو ان معاملات پر نظر رکھتے ہوئے متعلقہ اداروں کے راشی افسران
کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرکے ان کی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے، جس پر سپریم کورٹ ذمہ دار افسران کو طلب کرکے نہ صرف ان سے بازپرس کرے، بلکہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کرنے والوں کو قرار واقعی سزاؤں سے بھی ہمکنار کرے۔ حافظ جی کو صد فیصد یقین ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرانے والوں کی آمدن اور ان کی طرز رہائش کو ہی چیک کر لیا جائے تو قدم قدم پر درجنوں اسحاق ڈار جیسوں کی موجودگی کا پتہ چل سکے گا۔
گستاخی معاف! حافظ جی سمجھتے ہیں کہ سرکاری زمینوں اور املاک پر قبضہ کرنے والے ہی قصوروار نہیں کہ انہیں سزا دی جائے۔ اصل قصوروار تو بلدیاتی اور ترقیاتی اداروں اور محکمۂ پولیس کے وہ راشی افسران و اہل کار ہیں، جنہوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے لئے قبضے کرائے اور شہر کو کباڑی کی دکان بنانے والوں کی جانب سے آنکھیں قصداً موندے رکھیں۔ ایسے تمام افسران واہل کاروں کو کٹہرے میں لاکر ان کا کڑا احتساب کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ساٹھ ستر سال سے جاری حرام خوری کے کام کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔ (وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More