سراج محمد کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ سراج کا وہاں چھوٹا سا اینٹیں بنانے کا تھلا ہے، جس سے سراج کا گھر بار چلتا ہے۔ اس تھلے سے سراج کی جتنی آمدنی ہوتی ہے، وہ اپنی اہلیہ نصرت کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے کہ لے نیک بخت گھر چلا۔ سراج کی سگھڑ بیوی اس رقم کو سو سو بار سوچ کر خرچ کرتی ہے کہ مہنگائی نے سب ہی کو پریشان کر رکھا ہے۔ گھر کا چولہا جلانا آسان تو نہیں۔ پھر ان کا بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے۔ سارے گھر کا خرچ ایک طرف اور اس کا تعلیمی خرچ ایک طرف۔ سراج محمد اور نصرت کس طرح گھر چلا رہے ہیں، یہ وہ جانتے ہیں یا پھر اوپر والا جانتا ہے۔ سمجھیں تنی ہوئی رسی پر اس طرح چل رہے ہیں کہ ایک ہاتھ میں بچوں کی تعلیم کا خرچ ہے، دوسرے میں بجلی، گیس اور پانی کے اخراجات۔ ایک ہاتھ میں دال، دلیہ اور گھر کا راشن اور دوسرے میں دکھ، بیماری، شادی خوشی… زندگی بمشکل سفید پوشی سے گزر رہی تھی کہ نصرت بی بی کو انصاف کا شوق چرایا۔ اسے خیال آیا کہ اپنا حق نہیں چھوڑنا، لے کر رہنا ہے اور اس کے بعد سے سراج محمد کی جدوجہد کی کہانی شروع ہوتی ہے۔
اس کہانی کا آغاز خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں ایک چھوٹی سی جگہ کی ملکیت کے تنازعے سے ہوتا ہے۔ سراج محمد کی شریک حیات نصرت بی بی کی دو بہنیں ہیں، بھائی کوئی نہیں۔ والدین کے انتقال کے بعد ان کا خیال تھا کہ ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی یہی تینوں وارث ہیں، لیکن یہ خیال اس وقت خام خیال ثابت ہوا، جب نصرت بی بی کے کزن نے جائیداد پر ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔ اس کے پاس دعوے کی سچائی کے لئے ایک بیان حلفی تھا، جسے اسٹامپ پیپر کہتے ہیں۔ سراج محمد کے مطابق یہ اسٹامپ پیپر مردان کے ایک ایسے پچھتر سالہ شخص سے بنوایا گیا، جس پر پہلے ہی دس مقدمات چل رہے ہیں۔ اس اسٹامپ پیپر سے مقدمے بازی شروع ہوگئی، جسے اب ساڑھے تین برس ہوچکے ہیں۔ ان ساڑھے تین برسوں میں سراج محمد کا تقریباً بیانوے مرتبہ کراچی سے مردان جانا ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے پچیس لاکھ روپے اب تک خرچ ہو چکے ہیں۔ اس مقدمے بازی میں مجھے اپنا ایک مکان جس کی مالیت بیالیس سے چوالیس لاکھ روپے سے کم نہ تھی، مجبوری میں چونتیس لاکھ میں بیچنا پڑا۔ مقدمہ میں تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں، لیکن فیصلے کی تاریخ آکر ہی نہیں دے رہی۔ اس جائیداد میں سراج کی اہلیہ کی دو بہنیں بھی حصہ دار ہیں، لیکن وہ مقدمے کے اخراجات میں حصہ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایک سالی کا شوہر راج مزدوری کرتا ہے اور اکثر سردیوں میں اس کے اوزار کھردرے ہاتھوں سے دور ہوتے ہیں۔ پشاور پنجاب میں چھوٹے دن ہونے کے باعث لوگ گھروں کی مرمت اور تعمیر گرمیوں میں ہی کرانا موزوں سمجھتے ہیں۔ سراج کی دوسری سالی کی مالی حالت یہ ہے کہ مردان عدالت میں پیشی کے بعد سراج جب ان کے گھر جاتا ہے تو آٹے کی بوری ساتھ لے جاتا ہے۔ سراج کو علم نہیں کہ اس مقدمے کا فیصلہ کب ہو گا۔ یہ کہانی عدالتوں میں مقدمات لڑنے والے تقریباً ہر سراج کی کہانی ہے۔ سیلانی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے یہاں مقدمات کی سماعت کچھوے کی چال سے آگے بڑھتی ہے، کیوں کہ کچھوا بہرحال آگے تو بڑھتا ہے…
یہی سراج محمد سیلانی کے ساتھ فون پر بات کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ وہ ایک بار پھر پیشی پر مردان آیا ہوا ہے۔ یقینا اس پیشی کے بطن سے ایک اور پیشی نے جنم لیا ہوگا۔ پیشکار نے کسی ماہر گائناکالوجسٹ کی طرح یہ پیشی سراج محمد کے حوالے کی ہوگی اور وہ اس پیشی کو سینے سے لگائے سر جھکائے عدالت سے باہر نکل آیا ہوگا۔
اب سیلانی آپ کو ایک ایسے ملک کی کہانی سناتا ہے، جسے دہشت گردی نے کسی آکٹوپس کی طرح اپنی درجن بھر ٹانگوں میں جکڑ رکھا تھا۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور شرارتی پڑوسیوں کے سبب وہاں بھی خود کش دھماکے شادی بیاہ میں ہونے والے پٹاخوں کی طرح عام تھے۔
حکمرانوں کے خوف کا یہ حال تھا کہ وہ بلٹ پروف کاروں میں سڑکوں پر آتے تو کئی کئی گھنٹے پہلے سے شاہراؤں پر کرفیو لگا دیا جاتا کہ مبادا کوئی خودکش سامنے سے نہ آجا ئے۔ عالم یہ ہوتا کہ جس شاہ راہ سے شاہ نے گزرنا ہوتا، اس کے دائیں بائیں غریب عوام حسرت بھری نگاہوں سے کھڑے گھنٹوں منتظر رہتے کہ کب وہ شاہی سواری گزرے گی اور کب وہ اس شاہ راہ پر بچھا راستہ سمیٹ کر اپنی اپنی منزل کو پہنچ سکیں گے۔ اس ملک کا ایک شہر کراچی ہی کی طرح تھا۔ ویسا ہی گنجان آباد، ٹیڑھی میڑھی گلیوں اور لمبی لمبی سڑکوں والا، جہاں دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لمبے لمبے تھے۔ ان لمبے اور طاقتور ہاتھوں پر کہیں سیاسی دستانے ہوتے اور کہیں لسانی، کہیں مذہبی اور کہیں مسلکی۔ ان دستانوں کی وجہ سے ان ہاتھوں کو پہچاننا مشکل تھا۔ آئے دن کے خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ سے تنگ آکر اس ملک کی مقتدر قوتوں نے بھرپور آپریشن کا فیصلہ کیا۔ پولیس اور فوج میدان میں آگئی۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہونے لگیں۔ امن کے دشمن مارے جانے لگے۔ بھاگنے لگے۔ پکڑے جانے لگے۔ اب مسئلہ ان کو سزائیں دینے کا کھڑا ہوگیا، کیوں کہ ان کے سامنے عدالتوں کے منصف بیٹھنے سے ہچکچاتے تھے۔ ان کے مقدمے سننے کا سیدھا سیدھا مطلب دہشت گردوں کی عدالتوں میں سزائے موت تھا۔ جج ڈر ڈر کر عدالتیں لگاتے۔ مقدمات سنے تو جاتے، لیکن ان کا اختتام فیصلوں پر شاذو نادر ہی ہوتا۔ اسی ملک کے اسی شہر میں اعلیٰ عدالت کے ایک جج پر خودکش حملہ ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے منصف زخمی ہوکر بچ رہتا ہے۔ جج صاحب کو نہایت سیکورٹی میں ایک بہترین نجی اسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ جج سے وہاں تعینات ایک جرنیل ملنے جاتا ہے، طبیعت پوچھتا ہے، مزاج پرسی کرتا ہے اور سرہانے گلدستہ رکھ کر اپنی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروا کر واپس چلا آتا ہے۔ جج پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج ہوتا ہے اور اس طرح درج ہوتا ہے کہ اس کا مدعی دہشت گردوں کا ٹارگٹ بننے والا جج نہیں ہوتا۔ وہ جرنیل پھر جج صاحب کے گھر جاتے ہیں۔ حوصلہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اب تو آپ کو یقین ہو جانا چاہئے کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔ آپ مثال بنیں اور اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرائیں، تاکہ دیگر عدالتوں کے جج بھی حوصلہ پکڑیں۔ آپ کا یہ اقدام عدلیہ میں نئی روح پھونک دے گا، ورنہ ججوں کے حوصلے کمزور پڑ جائیںگے… جنرل جتنا سمجھا سکتا تھا، اس نے سمجھایا، لیکن سہما ہوا جج مدعی بننے پر رضامند نہ ہوا۔ مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج ہوا اور یہی نہیں، اسے اس دور میں بننے والی فوجی عدالتوں میں بھیج دیا گیا۔ کیا سیلانی اب یہ بھی یہ بتائے کہ اس ملک میں انصاف کا کیا حال ہو گا؟ خوف سے سہمے ہوئے کاندھوں اور سامنے کھڑے ملزموں سے آنکھیں چرانے والا شخص کرسیٔ انصاف تک پہنچ جائیں تو عدالتوں میں انصاف کی ترازو کے پلڑے برابر نہیں رہتے ۔
سیلانی کو یہ کہانی اور سراج محمد کی بپتا ایک اخبار میں فوجی عدالتوں کے ایک ناقد کی تحریر پڑھتے ہوئے یاد آگئی۔ لکھنے والے نے یکلخت فوجی عدالتوں پر خط تنسیخ پھیرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسے متوازی عدالتی نظام کی شکل کہا تھا۔ یہ تحریر پڑھتے ہوئے سیلانی کو جہاں یہ کہانی یاد آئی، وہیں اسے یہ بھی یاد آیا کہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان بھی ایسے ہی حالات سے گزر رہا ہے اور کراچی میں بھی یہی حال رہا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ 2013ء میں کراچی ہی میں اعلیٰ عدالت کے ایک جج پر بھی خود کش حملہ ہوا تھا، بفضل تعالیٰ وہ محفوظ رہے اور دلچسپ امر یہ کہ اس واقعے کا مقدمہ بھی اس جج کی مدعیت کے بجائے سرکار کی مدعیت میں درج ہوا تھا۔ حیرت انگیز بات طور پر اس مقدمے کا بوجھ بھی عدلیہ کے بجائے ملٹری کورٹ کے کاندھوں پر دھر دیا گیا… سچی بات ہے سیلانی فوجی عدالتوں کے حق میں کسی بھی طرح نہیں، بطور ایک صحافی کے وہ ان عدالتوں میں رپورٹنگ کے لئے جانا چاہتا ہے، جہاں کرسی پر شیروانی یا سوٹ پہنے معزز جج صاحب تشریف فرما ہوں، جن کا قلم کسی خوف کے بغیر سزا اور قضا کا فیصلہ کرے، مگر خواہشیں اپنی جگہ اور سچائیاں اپنی جگہ ہوتی ہیں۔ شیروانی اور تھری پیس سوٹ پہن کر عدالتوں میں آنے والے ان ججوں کی عدالتوں کا حال یہ ہے کہ ختم ہونے والے 2018ء کے آغاز میں عدلیہ کے پاس زیر التواء مقدمات کی تعداد 18 لاکھ 69 ہزار 886 تھی۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک کی سب سے معتبر اور بڑی عدالت سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 38,539 اور اس کے بعد پانچوں ہائی کورٹس میں فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد 2,93,947 تھی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا حال بھی سن لیں۔ گئے سال 2017ء تک صرف سندھ میں ان عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 5000 تھی۔ یہ وہ عدالتیں ہیں، جہاں صرف دہشت گردی کے مقدمات سنے جا سکتے ہیں۔ اب جس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہو، اس مسئلے کے حل کی سنجیدگی کا عالم یہ رہے اور کسی کی پیشانی پر فکرمندی سے شکن تک نہ آئے، وہاں کیا امن قائم ہوگا؟
اس میں دو رائے نہیں کہ ملٹری کورٹس جلد یا بدیر ختم کرنا ہوں گی، لیکن کیا موجودہ تناظر میں انہیں ختم کرنا بہتر ہے یا ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالتی نظام کو قوت دینا اچھا ہوگا؟ حکومت ہنگامی طور پر عدالتی نظام کی جانب متوجہ کیوں نہیں ہوتی؟ اسے یہ توجہ تو عشروں دہائیوں پہلے دے دینی چاہئے تھی، لیکن نہیں دی گئی اور نتائج اٹھارہ لاکھ سے زائد زیر التواء مقدمات کی صورت میں سامنے ہیں۔ اس صورتحال میں ملٹری کورٹس ختم کر دیں تو متبادل وہی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں رہ جاتی ہیں، جن کے ایک صوبے میں پانچ پانچ ہزار مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں؟ یہ طوالت چاہے عملے کی کمی، وسائل کی عدم دستیابی کے سبب ہو یا اس کا سبب خوف، ڈر عدالتی عملے کا عدم تحفظ کا احساس ہو، وجہ کچھ بھی ہو، یہ طوالت قانون شکنوں اور دہشت گردوں کے حوصلے ہی بڑھاتی ہے۔ یہ بھلا نہیں کہ وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے ملٹری کورٹس عدلیہ کا بڑا بوجھ اٹھانے کے لئے مدد کو آگئیں؟ دلدل میں دھنسنے والا مدد کے لئے بڑھنے والے ہاتھ کی کلائی پر میلا کف نہیں دیکھتا۔ اس کی آستین پر لگے داغ چیک نہیں کرتا۔ اسے بس مدد سے مطلب ہوتا ہے۔ حکومت بھی یہی سمجھ لے اور ملٹری کورٹس کی مدد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا عدالتی نظام اتنا مضبوط کرلے کہ پھر کسی ملٹری کورٹس کی ضرورت نہ پڑے۔ کپتان کی حکومت کے تعلقات ویسے بھی تمام اداروں سے اچھے ہیں۔ کپتان اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر عدالتی نظام میں اصلاحات کا اعلان کیوں نہیں کرتا؟ ایسے اقدامات کیوں نہیں اٹھاتا کہ ان زیر التواء مقدمات کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے۔ چلیں ان مقدمات کو چھوڑ دیں، صرف دہشت گردی ہی کو لے لیں۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کو ہی فوکس کر لیا جائے اور پھر فوراً سے پیشتر ملٹری کورٹس بھی ختم کر دی جائیں۔ تب کون احمق مخالفت کرے گا؟ سیلانی یہ سوچتا ہوا چشم تصور میں کراچی کے سراج محمد کو خیبر پختونخواہ کی عدالت سے سر جھکائے ہوئے نکلتا دیکھنے لگا اور بے بسی سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post