صرف یوٹرن نہیں، زگ زیگ لکیر

0

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ترقی و خوش حالی کا ایک زریں اصول بیان کیا تھا کہ ’’کام، کام اور کام‘‘ لیکن پاکستان کے حکمران اور سیاستدان جس اصول پر عمل کر رہے ہیں، وہ ہے ’’باتیں، باتیں اور باتیں‘‘ اسے وعدے، دعوے اور فریب سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا پرفریب نعرہ دے کر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم جنرل ایوب خان کے دور سے برسر اقتدار رہنے والے تیسری دنیا کے اس مقبول رہنما نے تختہ دار تک پہنچنے تک اس سمت میں ایک قدم بھی نہ بڑھانے کے باوجود اپنی شخصیت کا سحر برقرار رکھا۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے ان کے ورثا نے بھی بھٹو کا نام اور ان کا یہ نعرہ استعمال کر کے عوام کو مسلسل فریب میں مبتلا رکھا۔ سندھ میں آج بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، جس کی کارکردگی کے بدترین ہونے کی مثال تھرپارکر میں ہر سال بھوک اور بیماریوں سے ہلاک ہونے والے ہزاروں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین ہیں۔ شہر کے لوگ تو کسی طرح اپنی زیست کا سامان کر لیتے ہیں، لیکن تھرپارکر جیسے دور دراز لق و دق ریگستانوں میں رہنے والوں کو زندگی کی کوئی سہولت پیپلزپارٹی اپنے کسی دور میں نہیں پہنچا سکی۔ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کے چھوٹے بڑے رہنمائوں اور ان کے اقتدار کے ادوار کی تعداد کچھ کم نہیں۔ لیاقت علی خان کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو بلاشبہ بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اگرچہ جنرل ضیاء الحق کی آغوش میں سیاسی تربیت حاصل کی اور پنجاب کی صوبائی حکومت سے لے کر وفاقی حکومت تک وہ خود اور ان کا خاندان متعدد بار برسراقتدار رہا۔ انہوں نے ملک کو ترقی و خوش حالی سے ہمکنار کرنے کے لیے کبھی قرض چکائو ملک بچائو کا نعرہ دیا تو کبھی زراعت کے فروغ اور کبھی بھارت کے ساتھ تجارت کو لازمی قرار دے کر ہر مرتبہ عوام کو نیا فریب دیا۔ پیپلز پارٹی کی ظاہری مخالفت میں تو میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی یہاں تک چلے گئے کہ انہوں نے اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی دولت کے انٹرنیشنل لٹیروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پھانسی چڑھانے کے بلند بانگ دعوے کئے، جن میں سے کوئی ایک بھی پورا نہ ہو سکا اور نہ ملک شدید سیاسی و اقتصادی بحرانوں سے نکل سکا۔ اس کے دو اسباب واضح تھے۔ ایک شریف برادران کا خود کرپشن میں بری طرح ملوث ہونا۔ دوسرا پیپلز پارٹی سے ظاہری مخالفت، لیکن اندرونی طور پر مکمل مفاہمت دونوں کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ’’کھائو اور کھانے دو‘‘۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کو اس امر کی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے اپنے ادوار میں ذرائع ابلاغ میں لفافوں کی زبردست تقسیم اور جائیداد املاک بنانے کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ خود پر تنقید کرنے والوں کو آزادیٔ اظہار کے نام پر کھلی چھوٹ دی۔ ان کے ادوار کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ایک ہی اصول اپنائے رکھا کہ ذرائع ابلاغ کچھ بھی کہتے اور لکھتے رہیں، ہم ان کی معمولی بھی پروا کئے بغیر اپنا کام پوری تندہی اور خوشدلی سے کرتے جائیں گے اور یہ کام پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے یا عوام کے دکھ درد اور مسائل دور کرنے کا نہیں، بلکہ قومی دولت کی بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ، اپنی تجوریاں بھرنے اور اندرون و بیرون ملک املاک و جائیداد بنانے کا تھا، جو انہوں نے کما حقہ پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
اور پھر جب سفاک قاتل اور بدترین لٹیرے حکمران و سیاستدان بیک وقت قانون قدرت اور ملکی قانون کی گرفت میں آئے تو تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کو تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آنے کا موقع مل گیا۔ لیکن عمران خان کے علاوہ ملک و قوم کی بھی بڑی بدنصیبی یہ رہی کہ نئی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی نے پوت کے پائوں پالنے میں دکھا دیئے۔ عمران خان سے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے جو سب سے بڑی امید وابستہ کر لی تھی، وہ یہ تھی کہ انہیں فوری طور پر عزت و آبرو کے ساتھ دو وقت کی روٹی میسر آجائے گی اور ان کے خاندان کے ہر فرد کو علاج اور صحت کی بنیادی سہولتیں مل جائیں گی، یہ بہت بڑی توقع نہ تھی۔ بڑے لٹیروں سے رقوم نکلوا کر اور خود اپنے اعوان و انصار سے سادگی اختیار کرا کے یہ کام مہینوں میں نہیں، ہفتوں میں شروع کیا جاسکتا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کے پاس ایسا کوئی وژن تھا نہ ترجیحات کی کوئی فہرست، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نئی حکومت اب تک اپنی سمت ہی کا تعین نہیں کر سکی ہے کہ اسے دائیں جانا ہے یا بائیں جانا۔ اسے تو دنیا بھر میں یہ شہرت حاصل ہوگئی ہے کہ ہر نئے رہرو کے ساتھ کچھ دور جاکر یوٹرن لے لیا جائے، اپنے اقوال میں بھی اور افعال میں بھی۔ ملک کو قرضوں سے نکالنے اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے نام پر تو عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کیلئے اتنے یو ٹرن لے چکی ہے کہ یہ راہ راست کے بجائے ٹیڑھی میڑھی اور پیچ دار (زگ زیگ) لکیر بن کر رہ گئی ہے، جو غریب عوام کو دھوکا دینے کا بالکل نرالا انداز ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اقتدار کیلئے بری طرح ہاتھ پیر مارنے کی کوششوں کے دوران اگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وطن عزیز کس قدر شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے انہوں نے کوئی ہوم ورک بھی نہیں کر رکھا تھا تو انہیں ہر گز دور رس اور عملی اقدامات کا حامل رہنما قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقتدار میں آتے ہی قوم کے دلدر دور کرنے کا وعدہ نبھانے والے وزیراعظم عمران خان نے اول روز سے غریب لوگوں پر ہر شے کی مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ لادنا شروع کر دیا۔ عوام کو بری طرح بے حال کرنے والی ان کی حکومت نے پاکستان اور اس کی کرنسی کو بھی زوال پذیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ جمعہ کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کے نرخ اچانک ایک سو بیالیس روپے تک اور سونے کی قیمت میں ایک ہزار روپے فی تولے کا اضافہ تحریک انصاف کی بدترین اقتصادی پالیسیوں کا مظہر ہے یا آئی ایم ایف کے آگے پوری طرح سجدہ ریز ہونے کا فیصلہ؟ جبکہ ڈالر کی قیمت کو ایک سو پچاس روپے تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان اہل وطن کو طفل تسلیاں دینے میں مصروف ہیں کہ گھبرائیں نہیں، کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ان سے اگلے بھی یہی کچھ کہتے رہے اور پچھلے بھی شاید یہی کہیں تو تبدیلی کب آئے گی؟ کیسے آئے گی اور کون لائے گا؟ کیا آئندہ آنے والا ہر حکمران بھی ایسا ہی نیا پاکستان لاتا رہے گا؟ اور پاکستانی قوم اسی طرح اس کے دام فریب میں آتی رہے گی؟ بلاول بھٹو کا یہ مطالبہ بالکل بروقت اور بجا نظر آتا ہے کہ عمران خان آخری یوٹرن لے کر قیمتیں کم اور مہنگائی ختم کر کے قوم کی جان چھوڑ دیں۔ ان کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ سدھو جی کے ساتھ کرکٹ کے میدان میں پہنچ کر چوکے اور چھکے لگانے میں مصروف ہو جائیں۔ اس طرح ان کی اور پاکستان کی شان میں اضافہ ممکن ہے بصورت دیگر وہ سابقہ حکمرانوں سے زیادہ برے حشر سے دو چار ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More