بھاری بھرکم بستے اور بچوں کے جسمانی عوارض

0

یہ بظاہر ایک معمولی لیکن در حقیقت ایک بڑا قومی مسئلہ ہے کہ وطن عزیز میں یکساں نظام تعلیم رائج نہ ہونے کی وجہ سے صحت کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی زبردست کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کا معیار بلند ہونے کی وجہ سے وہاں داخلہ مشکل سے ملتا تھا۔ نجی تعلیمی ادارے گنی چنی تعداد میں ہوتے تھے اور وہ بھی سرکاری اداروں کی طرح اپنا تعلیمی معیار بلند رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگرچہ ان کی فیسیں کچھ زیادہ ہوتی تھیں۔ آج بھی اساتذہ کی تعلیم، صلاحیت اور تجربے کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو سرکاری تعلیمی اداروں میں قابل اساتذہ کی تعداد نجی اداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ان کی تنخواہ اور پنشن بھی نہایت پرکشش ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں بھی باصلاحیت، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ بھی بلاشبہ دیانتداری اور مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مالکان نے بے تحاشا فیسوں اور مہنگی کتابوں کے ذریعے جو لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے۔ حکومت اور قوم کو اس کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کا شعبہ وفاق کے پاس ہونے کے بجائے صوبوں کو تفویض کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے ہر صوبے کا نظام اور معیار تعلیم مختلف ہے۔ صوبہ سندھ، بالخصوص اس کا دارالحکومت اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی تعلیم و تدریس کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ جہاں ہر گلی کوچے میں قومی زبان اردو کے بجائے انگریزی ذریعہ تعلیم کی آڑ میں بھاری فیس لے کر اور ناشروں سے ملی بھگت کرکے بچوں کو اتنے بھاری بستے تھما دیئے جاتے ہیں کہ وہ مختلف جسمانی عوارض سے دوچار ہونے لگے ہیں۔ روزنامہ امت نے اس اہم مسئلے پر توجہ دے کر ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق حکومت سندھ اور محکمہ تعلیم کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث صوبے کے دو کروڑ طلبہ و طالبات بھاری بستوں کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کے درد اور جوڑوں کے کمزور ہونے کی شکایات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ہر ماہ ہزاروں طلبہ و طالبات کے والدین کمر درد، گردن اور بازوؤں کی تکلیف کا شکار ہونے والے بچوں کے ساتھ اسپتالوں، کلینکس اور ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں۔ دو کروڑ بچوں کی مذکورہ تعداد صرف صوبہ سندھ سے تعلق رکھتی ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں کے اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں تو بہت بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات بھاری بستوں کی وجہ سے کمر، گردن اور کندھوں کے درد میں مبتلا نظر آئیں گے۔ یہ عضلاتی اور اعصابی تناؤ بچوں کے ذہنوں پر کیسے کیسے مضر اثرات مرتب کرتا ہوگا، اس پر تحقیق کی جائے تو مزید ہولناک نتائج سامنے آئیں گے۔
رواں سال مارچ میں عباسی اسپتال کراچی کے ڈاکٹر نعمان ناصر نے صوبائی سیکریٹری تعلیم اور شہر کے اسکولوں کی انتظامیہ کو بھاری بھرکم بیگز (بستوں) سے پیدا ہونے والے طلبہ و طالبات کے طبی مسائل پر متوجہ کیا تھا۔ ڈاکٹر عثمان ناصر کے مطابق روزانہ چار، پانچ اور ماہانہ بہت سے بچے صرف عباسی اسپتال میں گردن کے تناؤ، کمز اور کندھے میں درد کی شکایات لے کر آتے ہیں، جبکہ صوبے بھر میں پانچ سے تیرہ سال کے بچوں کی پینتیس فیصد تعداد اس درد ناک عذاب سے گزر رہی ہے۔ بچوں میں بھاری بستے اٹھانے کی وجہ سے ہڈیاں مڑنے اور کمر کے نچلے حصے میں تکلیف سمیت اعصابی بیماریاں لاحق ہونے لگی ہیں۔ والدین کی عام شکایت یہ ہے کہ بچوں کے کبھی ہاتھ اور کبھی پیر سن ہو جاتے ہیں۔ نجی اسکولوں کے ڈائریکٹر جنرل انسپیکشن منسوب صدیقی نے ’’امت‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس حوالے سے کام جاری ہے، وزیراعلیٰ کی جانب سے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ جس کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ بہت ساری تجویزیں زیر غور ہیں۔ جلد ہی اقدامات کئے جائیں گے۔ تاہم اس کے متعلق ابھی کچھ بتانا قبل از وقت ہوگا۔ ترجمان محکمہ تعلیم کے مطابق وزیر تعلیم سردار علی شاہ غیر ملکی دورے پر ہیں۔ جبکہ ’’امت‘‘ نے سیکریٹری تعلیم قاضی شاہد پرویز سے دو روز تک رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے فون اٹھانے اور ایس ایم ایس کا جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ہمارے خیال میں سارے فساد کی جڑ مقتدر متمول طبقوں اور عوام کے لئے علیحدہ علیحدہ نظام تعلیم ہے۔ غریبوں کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں بیشتر مفت خور اور فرض نا شناس اساتذہ اور بدعنوان افسران و حکام کی وجہ سے معیاری تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ ان کے لئے تعلیم و تدریس کا انتظام جن ہاتھوں میں ہے، ان کے اپنے بچے لاکھوں روپے سالانہ فیس دے کر اندرون و بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس کے اخراجات وہ یقیناً سرکاری خزانے یا ناجائز کمائی سے پورے کرتے ہوں گے۔ ان کے بچوں کے بستے بھی ڈرائیور، گارڈ یا دوسرے ملازمین اٹھا کر پہنچاتے ہوں گے۔ لہٰذا انہیں غریبوں کے بچوں کی تعلیم اور صحت کے لئے فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ حسب معمول اجلاس اور غیر ملکی دورے کرکے ملکی خزانے پر بوجھ ڈالتے رہیں گے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ایک بچے کی تعلیمی کمزوری پر یہ مشورہ دیا گیا کہ اس کے لئے ٹیوشن کا انتظام کر دیا جائے تو ایک دنیا پر حکمرانی کرنے والے ملک برطانیہ کے وزیر اعظم نے اس کے بجائے سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کا حکم دیا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں تو حکمرانوں، امیروں اور غریبوں کے لئے یکساں تعلیمی نظام رائج کرنا حکومت وقت کا بنیادی فرض ہے، جس کا وعدہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی شدو مد سے کیا تھا۔ بدقسمتی سے وہ اپنی پارٹی کی حکمرانی کے صوبے خیبر پختونخوا میں پانچ سال کے دوران یہ کام نہ کر سکے تو ملک بھر میں کب اور کیسے کریں گے؟ ماضی میں بستوں کا بوجھ کم اور اساتذہ کی محنت زیادہ ہونے کے نتیجے میں بڑے بڑے ادیب، شاعر، دانشور، سائنس دان سیاستدان اور ہر شعبہ زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والے افراد پیدا ہوتے رہے، لیکن آج ان ہی تعلیمی اداروں سے ناچنے گانے، کھیلنے کودنے اور معاشرے میں ہر نوع کی فحاشی پھیلانے والے لوگ جنم لے رہے ہیں۔ جس کا بدترین مظاہرہ سیاست اور حکمرانی کے شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس وقت بچوں کے اخلاق و کردار اور علمی صلاحیت کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ان کی صحت کا بھی ہے، اس پر فوری توجہ نہ دی گئی تو بھاری بستوں کی وجہ سے ہماری آئندہ نسلوں میں ذہنی و جسمانی طور پر معذور افراد کا تناسب خدانخواستہ بہت بڑھ سکتا ہے۔ حکمران طبقے سے تو اس پر توجہ دینے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ لہٰذا محب وطن اساتذہ اور دانشوروں کو خود ہی آگے بڑھنا ہوگا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More