قسط نمبر: 189
عباس ثاقب
میں نے اپنے لہجے کا اضطراب، بے چینی اور رنج چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’کیا مطلب؟ کیا تم ان میں سے ایک کو پہلے ہی کسی کو فروخت کر چکے ہو؟‘‘۔
اس نے قدرے تذبذب کے بعد جواب دیا۔ ’’یہی سمجھ لیں!‘‘۔
میں نے قدرے جھنجلاہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’سمجھ لیں کا کیا مطلب؟کون سی والی لڑکی؟ بڑی، منجھلی یا چھوٹی؟‘‘۔
وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ پھر بولا۔ ’’بڑی والی!‘‘۔
میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’ان میں وہی سب سے سندر ہوگی! اسی لیے سب سے پہلے اسے خریدا گیا!‘‘۔
مانک نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں۔ خوب صورتی میں تو تینوں ہی ایک دوسرے بڑھ کر تھیں۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ سب سے سندر کون سی ہے!‘‘۔
میں نے چونک کر کہا۔ ’’تھی سے کیا مطلب ہے؟‘‘۔
اس نے سنبھلتے ہوئے کہا۔ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ اب تو ان میں سے دو ہی میرے پاس رہ گئی ہیں ناں!‘‘۔
لیکن اس کی بات سن کر میں کھٹک گیا تھا۔ شاید وہ کچھ چھپا رہا تھا۔ میں نے کریدا۔ ’’تم تیسری لڑکی کے بارے میں جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو؟‘‘۔
وہ میری بات سن کر اتنی بری طرح چونکا کہ مجھے حیرت ہوئی۔ ’’نہیں، میں کیوں جھوٹ بولوں گا؟ اگر وہ تیسری بھی ابھی تک موجود ہوتی تو مجھے اسے آپ کے حوالے کرنے میں کیا اعتراض ہوتا؟ ہو سکتا ہے آپ زیادہ قیمت لگاتے‘‘۔
میں نے چبھتی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے لگ رہا ہے تم مجھے جھانسا دے رہے ہو۔ وہ لڑکی شاید تمہارے باس مٹھو سنگھ جی نے اپنے لیے چُن رکھی ہے۔ اس لیے تم اسے فروخت کے لیے میرے سامنے پیش کرنا نہیں چاہتے ہو‘‘۔
مجھے لگا کہ میں نے اس کی کسی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ اس نے تڑپ کر کہا۔ ’’میں واہگرو کی سوگندھ کھاکر کہتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مٹھو سنگھ جی کاروبار کو اپنی ذاتی زندگی سے الگ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پاس موجود کسی ناری کو کبھی برتنے کی کوشش نہیں کی‘‘۔
میں نے مٹھو سنگھ کی اصول پسندی کا پرچار سن کر دل ہی میں دل میں اسے اور اس کے اس ایجنٹ کو ناقابلِ بیان القابات سے نوازا اور پھر بظاہر سادہ سے لہجے میں پوچھا۔ ’’کیاوہ لڑکی بھی کسی رئیس نے خریدی ہے؟ یا اسے بازار میں بٹھانے کے لیے بھاری قیمت ادا کی گئی ہے؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’شماچاہتا ہوں سردار جی۔ یہ ہمارا کاروباری راز ہے‘‘۔
میں نے جھنجلاکر کہا۔ ’’پھر تو تم یہ بھی بتاؤ گے کہ وہ کتنے میں فروخت ہوئی؟ تم میری بات کا مقصد نہیں سمجھ رہے ہو۔ اگر تم مجھے یہ سب بتادو تو ہو سکتا ہے میں اس شخص یا اس اڈے والوں کو ان کی اوقات سے زیادہ رقم دے کر وہ لڑکی خرید لوں۔ اس میں تمہارا کیا جائے گا؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلایا۔ ’’برا نہ مانو بہادر سنگھ جی، میں اس معاملے میں مجبور ہوں۔ آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا‘‘۔
اس کا انکار پر اصرار میرے حوصلے پست کر رہا تھا۔ لیکن میں ہار ماننے پر اتنی آسانی سے کیسے تیار ہو جاتا۔ ’’یار میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی کہ یہ معلومات تمہاری زبانی مجھ تک پہنچی ہیں۔ یہ میری انا کا سوال ہے کہ میں جس لڑکی کو حاصل کرنے کے ارادے سے یہاں آیا ہوں، وہ کسی اور نے ہتھیالی۔ میں تمہاری اس مدد کا تمہیں بھاری انعام دوں گا اور احسان بھی مانوں گا‘‘۔
بد قسمتی سے اسے پھسلانے کی یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ ’’میں یہی کہوں گا سردار جی کہ آپ کے اتنے اصرار کے باوجود حکم نہ ماننے پر مجھے شرمندگی ہو رہی ہے۔ میں اس معاملے میں بے بس ہوں۔ کسی قیمت پر زبان نہیں کھول سکتا‘‘۔
اسے کسی طرح بھی تعاون پر آمادہ نہ پاکر میں نے فی الوقت وہ معاملہ وہیں چھوڑکر باقی دونوں بچیوں کے حوالے سے ہر ممکن پیش رفت کا فیصلہ کیا۔ ’’ٹھیک ہے مانک جی، تم میرا دل توڑنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔ اب وقت ضائع کیے بغیر باقی دونوں لڑکیوں سے میری ملاقات کراؤ!‘‘۔
مانک نے ایک بار پھر معذرت کی اور کہا۔ ’’اس وقت تو ممکن نہیں ہے۔ ایسا کریں، آپ کل صبح یہیں آجائیں۔ میں آپ کو اپنے ساتھ لے چلوں گا‘‘۔
میں نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’مجھے صبح سویرے شہر سے باہر اتنی دور دھکے کھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ تم اس جگہ کا پتا اور محل وقوع مجھے سمجھاؤ اور وقت بتاؤ، میں خود وہاں پہنچ جاؤں گا‘‘۔
اس نے میری تائید کی۔ ’’ٹھیک ہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’اگر ان میں سے کوئی ایک یا وہ دونوں مجھے پسند آگئیں تو کیا سودا تم سے ہی کرنا ہوگا؟ میرا مطلب ہے مٹھوسنگھ…‘‘۔
اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔ ’’فکر نہ کریں سرکار۔ ان کا یہ والا پورا دھندا میں ہی سنبھالتا ہوں۔ انہیں ان بکھیڑوں میں پڑنے کی فرصت کہاں ہے۔ اب تو اسمبلی ممبر بھی بن گئے ہیں۔ ان کو بس فائنل حساب دینا ہوتا ہے۔ اس سودے کا بھی سب کچھ مجھے ہی طے کرنا ہے سرکار۔ مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ مٹھو سنگھ کتنی رقم خوشی سے قبول کرلیں گے‘‘۔
میں نے طنزیہ لہجے میںکہا۔ ’’تو یوں کہو ناں کہ تم اس دھندے میں مٹھو سنگھ جی کے پارٹنر ہو۔ مسافر خانے میں الگ زور و شور سے دھندا چل رہا ہے۔ اسی لیے یہ ٹھاٹ باٹ ہیں تمہارے!‘‘۔
اس نے اپنی طرف سے عاجزی کا اظہار کیا۔ ’’بس واہگرو کی کرپا ہے۔ گزارا ہو رہا ہے‘‘۔
میں نے چڑ کر کہا۔ ’’یار، اپنے دھندے میں واہگرو کو تو نہ گھسیٹو۔ صاف کہو ناں کہ سب مٹھو سنگھ جی کی کرپا ہے!‘‘۔
اس نے شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے دانت نکال دیئے۔ ’’یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہو بہادر سنگھ جی۔ یہ سب میلا مٹھو سنگھ جی ہی کے بل پر سجا ہوا ہے۔ ورنہ ہماری ایسی اوقات کہاں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’سنا ہے اب تو وہ یہاں کا رخ ہی نہیں کرتے!‘‘۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’ہاں جی، اسمبلی ممبر بننے کے بعد تو وہ چندی گڑھ کے ہی ہوکر رہ گئے ہیں۔ بس مہینے میں ایک بار، پہلی جمعرات اپنے حلقے نانک پورہ میں دربار لگاتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’چلو، زندگی نے موقع دیا تو ان کے درشن بھی کروں گا۔ اب میں چلتا ہوں۔ صبح ناری نکیتن پر تم سے ملوں گا۔ چوکی داروں کو میری آمد کے بارے میں بتا دینا‘‘۔ (جاری ہے)