حجراسود-تاریخ کے آئینے میں

0

حصہ دوم
تاریخ و حوادث:
تاریخ میں کم از کم چھ ایسے واقعات ملتے ہیں، جب حجر اسود کو چوری کیا گیا۔ یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ ہو سکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔ اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا، جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔
1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ ’’جرہم‘‘ کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئے کعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھ ’’حجر اسود‘‘ کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا یمن کی جانب کوچ کر گئے۔
حق تعالیٰ کی حکمت دیکھئے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا، جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے، ایک عورت نے انہیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا۔ اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کے کنویں سے بازیاب کرا لیا گیا۔
2 – ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ’’ قراماتین‘‘ نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریباً سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا۔
ابو طاہر نے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا۔ کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اس کے سنہری پرنالے کو اکھاڑ ڈالا اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کر دیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اس کو موجودہ دور میں جو علاقہ ’’بحرین‘‘ کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا۔
یہ حجر اسود کا ایک نہایت تکلیف دہ دور تھا۔ تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا۔ اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے۔ پھر خدا سبحانہ و تعالیٰ کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو ’’سنبر بن حسن‘‘ جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا، اس نے حجر اسود کو آزاد کرایا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا۔
اس وقت ایک مسئلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا کہ وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دے گا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں، کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے۔ اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا، پھر اس نے اس کو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں، بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے، کیوں کہ جنت کے پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More