4 دسمبر، جناب محمد صلاح الدینؒ کی شہادت کا دن ہے اور میرے لیے یوم امتحان۔ یہ دن آنے سے پہلے ہی میرے ذہن میں ان کی یادیں سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ جوں جوں یوم شہادت قریب آتا ہے، ذہن میں ایک ہنگامی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس دفعہ انہیں کیسے خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ میری ان کے ساتھ کوئی بہت زیادہ طویل رفاقت نہیں رہی۔ بمشکل سات سال کا عرصہ ان کی سرپرستی میں گزرا، لیکن ان سات برسوں کا عرصہ میرے ذہن پر ایسا نقش جادواں چھوڑ گیا کہ لگتا ہے کہ ابھی تو وہ یہاں تھے۔ یہیں کہیں ہوں گے۔ ان کے کمرے کی طرف جانے والی راہداری میری نشست کے قریب سے گزرتی تھی۔ تقریباً دبے پائوں گزرنے کے باوجود میں ان کے قدموں کی چاپ محسوس کر سکتا تھا۔ ان کے گزرنے کے انداز سے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ آپ نماز کے لیے جا رہے ہیں یا گھر روانگی کا ارادہ ہے۔ گھر جاتے وقت میری نشست کے سامنے ایک لمحے کے لیے رکتے ضرور تھے۔ کبھی کوئی ہدایت یا کوئی دوسری بات کرتے اور کبھی کچھ کہے بغیر آگے روانہ ہو جاتے۔ کارکنوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بے پناہ تیز ذہنی صلاحیت سے ان کے لیے یہ جاننا کوئی مشکل نہیں تھا کہ کارکن اس وقت اپنے کام میں کتنی دلچسپی لے رہا ہے۔
سات برسوں میں ان کو سات مرتبہ اگر کبھی غصے میں دیکھا ہوتا تو میں یہ کہہ سکتا تھا کہ آپ غصے والے تھے، لیکن ایسا موقع ایک مرتبہ بھی نہیں آیا۔ البتہ ان سے ملنے والے بعض حضرات جن کا مقصد انہیں ڈسٹرب کرنا ہوتا، وہ ان کے نکتہ نظر پر اعتراض برائے اعتراض کا عندیہ لے کر آتے تھے۔ آپ انہیں حتی الامکان محبت اور دلائل سے سمجھاتے۔ اکثر تو مطمئن ہو جاتے اور صاف چہرہ لیے رخصت ہو جاتے، لیکن کوئی کوئی ایسا بھی ہوتا جو کسی اور مقصد کے لیے آیا ہوتا۔ وہ اس کی نیت کو فوراً بھانپ لیتے۔ وہ سمجھ جاتے کہ یہ میرا وقت ضائع کرنے آیا ہے، وہ اس سے بجاطور پر معذرت کر لیتے اور وہ اپنا مقصد پورا نہ ہونے پر سٹپٹاتا ہوا رخصت ہو جاتا۔
ٹین کے جھونپڑے سے زندگی کی ابتدا کرنے والے اس گوہر نایاب نے اپنی ساری زندگی محنت، دیانت کے سائے میں گزاری۔ نان و نفقہ کے حصول کے لیے ایسے کام بھی کرنے پڑے، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی تحریروں اور تقریروں میں ڈھونڈنے سے کہیں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملتا، جو اسلام اور پاکستان کے خلاف ہو۔ ایسا سچا اور کھرا محب وطن اللہ جل شانہ کا تحفہ ہوتا ہے۔ وطن کے لیے بھی اور قوم کی رہنمائی کے لیے بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی مجھے پتہ چلتا کہ صلاح الدین صاحب آج فلاں جگہ خطاب کرنے والے ہیں۔ میں لپکتا ہوا وہاں پہنچ جاتا اور مستفید ہوتا۔ جیل میں بھی ان کے لکھنے کا سلسلہ جاری رہتا۔ ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’بنیادی حقوق‘‘ جیل کے زمانے کی یادگار ہے۔
جمیل اطہر قاضی اپنی تازہ کتاب ’’ایک عہد کی سرگزشت‘‘ میں لکھتے ہیں:
جناب محمد صلاح الدین ایک ایسے صحافی، ایڈیٹر اور دانشور تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر اور سوچ و بچار کی صلاحیتوں سے بدرجہ اتم نوازا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد جناب محمد صلاح الدین کی جیل میں لکھی گئی کتاب ’’بنیادی حقوق‘‘ شائع ہوئی تو ان کی خواہش تھی کہ اس کی تقریب رونمائی میں مولانا مودودیؒ شریک ہوں۔ ان دنوں مولانا کی صحت اچھی نہ تھی اور لاہور سے کراچی جانا مولانا کے لیے ممکن نہ تھا۔ اس لیے مولانا نے صلاح الدین صاحب سے کہا کہ آپ یہ تقریب میرے گھر کے لان میں منعقد کر لیں۔ اس طرح مجھے تقریب میں شرکت کا موقع مل جائے گا۔ مولانا کی خواہش پر ’’بنیادی حقوق‘‘ کی تعارفی تقریب ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ کے لان میں منعقد ہوئی۔ جماعت اسلامی کا مرکزی دفتر بھی اسی عمارت میں تھا اور مولانا مودودیؒ کی آخری آرام گاہ بھی اسی کوٹھی کے لان میں ہے۔
جناب محمد صلاح الدین شہیدؒ کی نمایاں اور دوررس اثر کی حامل تحریروں میں ہفت روزہ تکبیر میں شائع ہونے والے ان کے اپنے کالم ’’تجزیہ‘‘ کی تحریریں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ سچائی سے سجی ان شاندار تحریروں کا جادو آج بھی قاری کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ وقت بدل گیا۔ زمینی حقائق میں تبدیلیاں آگئیں۔ وطن دشمن اس وقت بھی بہت تھے اور آج ان میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن تکبیر میں چھپنے والے تجزیئے آج بھی ان کا خاطر خواہ مقابلہ کر رہے ہیں۔ محمد صلاح الدین کی ذہنی صلاحیت، فراست اور بلاغت آج بھی ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اگر آپ حیات ہوتے تو آج بھی مرد میداں کی طرح جمے ان کے پرخچے اڑا رہے ہوتے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس پر کوئی نقب لگانے والا اور ناموس رسالتؐ کی بے حرمتی کرنے والا ان کے قلم کی تلوار سے بچ نہیں سکتا تھا۔ اس لیے انہیں زندگی میں غازی اور پھر شہید صحافت کے رتبے پر فائز دیکھا جا سکتا ہے۔ میری اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ انہیں اور زیادہ بلند رتبے عطا فرمائے اور ان کی لحد مبارکہ کو جنت کے باغ میں تبدیل فرما دے۔
4 دسمبر ہر سال آتا ہے، آتا رہے گا اور جب بھی آئے گا مولانا محمد صلاح الدینؒ کی یادوں کی ایک اور بارات لے کر آئے گا۔ اس تقریب میں اس بہشتی دولہا کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔ بے شک شہدا زندہ رہتے ہیں اور موت کے بعد ایک نئی زندگی پاتے ہیں۔ یہ اللہ پاک اور ہادی برحقؐ کا فرمان ہے اور مبرا ایمان ہے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ وما علینا الا البلاغ۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post