چیف جسٹس، جسٹس جناب ثاقب نثار نے گزشتہ اتوار کو لاہور میں منشابم کے اراضی قبضوں سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے، پولیس کی جو ’’عزت افزائی‘‘ فرمائی، اس کے بعد ملک بھر کی پولیس کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور اس ادارے کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹیز کو پولیس اصلاحات پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے منشا بم سے واگزار کرائی گئی مظلومین کی زمین ان کے حوالے نہ کئے جانے اور منشا بم پر عنایات کے حوالے سے پولیس کے روایتی رویئے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی لاہور وقاص نذیر اور آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا: یہ کتنے شرم کا مقام ہے کہ پولیس بدمعاشوں سے ملی ہوئی ہے، آپ انہی بدمعاشوں سے گالیاںبھی کھاتے ہیں اور انہی کا دم بھی بھرتے ہیں۔
پولیس کے بارے میں چیف جسٹس کے مذکورہ بالاسخت ریمارکس کوئی اچنبھے کی بات نہیں، آئی جی، ڈی آئی جی پنجاب سمیت ملک بھر کے کسی بھی پولیس افسرکو ان کی یہ بات گراں نہ گزری ہوگی، سب سکون کی نیند سوئے ہوں گے، کسی نے ذلت و رسوائی کے ان کلمات پر رات آنکھوں میں نہ کاٹی ہوگی۔ کیوں کہ حقیقت بھی یہی ہے، جو چیف جسٹس نے بیان کی۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، پولیس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پولیس حقیقتاً عوام کی نہیں، بلکہ اپنے مفادات کی اسیری میں اتنی بے باک ہو چکی ہے کہ وڈیرے، جاگیردار، چور، لٹیرے، ڈاکو اور قبضہ مافیا کی طرف دار بنی ہوئی ہے۔ یہ پولیس کے لئے ’’بڑا اعزاز‘‘ نہیں تو اور کیا ہے کہ اب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلیٰ نے بھی اس کی اس اعلیٰ ’’کارکردگی‘‘ کا بھری عدالت میں بھانڈا پھوڑ کراس کی حقیقت سب پر عیاں کردی ہے۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے اس ادارے کے افسران و اہل کار عوام کی داد رسی کے بجائے مراعات کے حصول کے لئے ہمہ وقت بااثر افراد کو سہولیات بہم پہنچانے کی دوڑ میں شامل نظر آتے ہیں۔ صد افسوس کہ ہماری پولیس نے قانون کا ہی نیلام نہیں کیا، بلکہ اپنی عزتوں کا سودا کرکے محکمے کی اعلیٰ روایات کو بھی خاک میں ملا ڈالا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ آج نامی گرامی قابضین، کالے دھن کے سرخیل بڑے سے بڑے پولیس افسر کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کے ناجائز کاموں میں رکاوٹ آئے تو یہ اعلیٰ سے اعلیٰ پولیس افسر کو بھی لائن حاضر کرا لیتے ہیں اور مفادات کے اسیر ہمارے شیر جوان ان کی گالیاں اور مغلظات کان دبا کر سنتے ہیں اور عزتیں تار تار ہونے پر بھی جی حضوری کی نادر مثالیں قائم کرتے ہیں۔ اس سب کی وجہ یہ ہے کہ پولیس ان بدمعاشوں سے فوائد حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے اپنے قانونی اختیارات کا سرنڈر کر چکی ہے۔ پولیس کے بیشتر راشی افسران و اہل کار غنڈہ عناصر اور مافیاز کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، اگر کوئی انہیں ان کے فرائض کا احساس دلانے کی کوشش کرے تو یہ اسے کھلے عام کسی کیس میں فٹ کرانے کی دھمکی دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ محض ایک وقت کا کھانا کھانے کے لئے پولیس کے شیر جوان ہوٹلز مافیا کو چلتے ٹریفک کے دوران سڑکوں پر میز کرسیاں لگا کر کاروبار کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ایسے قابضین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے متعلقہ تھانے کی موبائل، دانتوں میں خلال کرتے چند مسلح اہل کاروں سمیت ان مقامات پر موجود رہتی ہے۔ اس امر کی زندہ مثال ابھی دو روزقبل اس وقت دیکھنے میں آئی جب رات گئے دفتر سے گھر واپسی پر حافظ جی کراچی میں انسداد تجاوزات کے مشاہدے کے لئے صدر اور برنس روڈ کی چند معروف اسٹریٹس کے دورے پر نکلے تاکہ اپنے کالم میں سنی سنائی لکھنے کے بجائے چشم دید کی حیثیت سے حقائق سامنے لا سکیں۔
تھوڑی ہی دیر کے سفر اور مشاہدے کے بعد یہ افسوسناک صورت حال سامنے آئی کہ انسداد تجاوزات کے عملے نے تو ان جگہوں پر اپنا کام کر لیا ہے، یعنی حدود سے بڑھی ہوئی دکانوں، مارکیٹوں اور ہوٹلز کو مسمار کرکے سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی ہے، مگر پولیس ان جگہوں سے قابضین کو ہٹانے سے دانستہ اجتناب برت رہی ہے۔ صدر اور برنس روڈ پر توڑی گئی فوڈ اسٹریٹس پر ہوٹلز مالکان نے مسمار ملبے سے آگے بڑھ کر اپنا کاروبار پوری آب وتاب سے جاری رکھا ہوا ہے، جس کے سبب ٹریفک کی روانی میں پہلے سے زیادہ خلل واقع ہو رہا ہے۔ کئی مقامات پر حافظ جی نے مسلح اہل کاروں سمیت پولیس موبائلوں کو بھی دیکھا، جو سڑک گھیرے کھڑی تھیں۔ قابل افسوس بات یہ تھی کہ جن پولیس اہل کاروں کا کام قبضہ مافیا کو دوبارہ قبضوں سے باز رکھنا ہے، وہی اس مافیا کو تحفظ فراہم کرتے ملے۔ حافظ جی سے ایک موقع پر یہ سب کچھ برداشت نہ ہوا تو صحافیانہ موڈ عود کر آیا اور دل کڑا کرکے موبائل میں بیٹھے ایک اہل کار سے صورت حال پر چند سوالات کر ہی ڈالے۔ اہل کار نے سر سے پاؤں تک حافظ جی کا جائزہ یوں لیا، جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ پہلے اعتراض پر پولیس اہل کار دانتوں میں خلال کرتے ہوئے نہایت لاابالی پن سے بولا: یار اگر کوئی غریب اپنی روٹی روزی کمانے کے لئے تھوڑا سا سڑک پر آگیا ہے تو تمہیں کیا تکلیف ہو رہی ہے؟ حافظ جی نے کہا: بات میری تکلیف کی نہیں، اصول و قوانین کی ہے، یہ سڑک ٹریفک کے حوالے سے اہم گزرگاہ ہے، پیچھے مڑ کر دیکھو، رات کے اس پہر بھی ٹریفک کی روانی کس قدر متاثر ہے، ان سڑکوں اور شاہراہوں کا گھیراؤ ختم کرانے کے لئے ہی تو سپریم کورٹ نے آڈرز دیئے ہیں۔ حافظ جی کے اس سوال پر پولیس اہل کار بولا: یار توڑ تو ڈالی ہیں تجاوزات، اب آپ کیا چاہتے ہو لوگ بھوکے مر جائیں! حافظ جی نے کہا: ٹھیک ہے توڑ پھوڑ تو ہوگئی، مگر جگہوں پر قبضے تو ختم نہ ہوئے، سب کے سب جوں کے توں برقرار ہیں، بلکہ مزید جگہ تنگ کردی گئی ہے، یہ قبضے ختم کرانا تو آپ کا کام ہے، سپریم کورٹ کے ججز تو آنے سے رہے۔ مگر آپ کسی کارروائی کے بجائے اتنے پُرسکون بیٹھے ہیں، جیسے سب کچھ ٹھیک ہو۔ اس چبھتے ہوئے سوال پر پولیس اہل کار نے کوئی جواب دینے کے بجائے صرف ہاتھ کے اشارے سے حافظ جی کو آگے بڑھ جانے کا اشارہ کیا اور بُڑبُڑاتے ہوئے بولا: ہر کوئی سپریم کورٹ کا جج بنا پھرتا ہے، جاؤ یار آپ کو راستہ مل گیا، اپنا کام کرو، کچہری نہ لگاؤ۔
پولیس اہل کار کے مذکورہ بالا روئیے اور جواب پر حافظ جی کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ تھا، اپنا تعارف کراکے اسے آئینہ بھی دکھایا جاسکتا تھا، مگر ایسا کرنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہ تھا کہ طاقت کے زعم میں تو معمولی پولیس اہل کار بھی خود کو آئی جی سے کم تصور نہیں کرتا، وہ قانون کے محافظ کے بجائے خود کو ہی قانون سمجھتا ہے۔ سو حافظ جی خاموشی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے، البتہ جاتے ہوئے یہ بھی نوٹ کیا کہ پولیس کی اس موبائل پر کسی تھانے کا نام یا نمبر کا اندراج نہیں تھا، جیسا کہ اکثر تھانوں کی موبائلز پردرج ہوتا ہے، نہ ہی اس گاڑی پر رجسٹریشن کی کوئی نمبر پلیٹ تھی، البتہ اہل کار مسلح اور با وردی تھے، اب یہ کیسے یقین کرلیا جائے کہ وہ پولیس اہل کار اصلی تھے یا قبضہ مافیا کی پروٹیکشن کے لئے انہوں نے پولیس کا روپ دھار رکھا تھا؟
گستاخی معاف! کراچی میں ایسی نہ جانے کتنی گاڑیاں اور دندناتی پھرتی ہیں، جنہیں لوگ پولیس کی موبائلز سمجھتے ہیں، جبکہ وہ ہوتے پرائیویٹ گارڈ ہیں۔ یہ بڑا خطرناک مسئلہ ہے۔ اس کا تدارک بھی ضروری ہے۔ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار حکومت اور انتظامیہ کو اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ (وما توفیقی الاباللہ)
٭٭٭٭٭
Next Post