آج کا کالم ملکی یا عالمی سیاست پر نہیں، بلکہ اس دنیا کے وجود کو لاحق خطرات پر ہے۔ پہلے انسان قدرتی آفات کا شکار ہوتے تھے، مگر اب وہ خود اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں، لیکن نبی کریمؐ کے تذکرہ سے اس کا آغاز کرتے ہیں، کیوں کہ یہ کالم لکھنے کی سوچ اسی ذات کی وجہ سے پیدا ہوئی، ورنہ الفاظ کا ہیر پھیر تو ہم روز کرتے ہیں، نبی کریم محمد مصطفیٰؐ رحمت للعالمین ہیں، ساری دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے تھے، یہ تو ہم جانتے ہیں اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے، ہر شعور اور عقل رکھنے والا انسان نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرکے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے، آپؐ جو پیغام اور نظام دنیا کو دے کر گئے ہیں، اس پر چلا جائے تو ساری دنیا ہی جنت بن سکتی ہے۔
نبی کریمؐ کے صفاتی نام تو اور بھی بہت سے ہیں، لیکن ہم آج رحمت للعالمین کا ذکر اس لئے کر رہے ہیں کہ گزشتہ روز مغربی میڈیا کی ایک رپورٹ ہماری نظروں سے گزری، جس میں چھٹی صدی عیسوی میں دنیا میں ہونے والی بڑی تباہی کی وجہ بتائی گئی ہے اور یہ بھی کہ اس تباہی سے دنیا کو کب نجات ملنا شروع ہوئی۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ نبی کریمؐ کی آمد سے قبل یہ دنیا صرف نظام اور تمدن کے حوالے سے تاریک نہیں تھی، بلکہ عملی طور پر بھی اس پر اندھیرا چھایا ہوا تھا اور یورپ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک انسانیت بھوک اور تباہی کے ہاتھوں سسک رہی تھی۔ نبی کریمؐ علم اور نظام کے حوالے سے ہی نہیں، عملی طور پر بھی دنیا کے لئے رحمت اور روشنی بن کر آئے۔ جریدے سائنس میں ہارورڈ یونیوسٹی میں قرونِ وسطیٰ کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل مک کارمک نے لکھا ہے کہ 536 عیسوی میں یورپ میں پراسرار سی دھند پھیل گئی۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے چند حصے 18 ماہ تک مسلسل اندھیرے میں ڈوب گئے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 1.2 سیلسیئس سے لے کر 2.5 سیلسیئس تک گر گیا۔ یہ گزشتہ 2300 برسوں میں سب سے سرد عشرہ تھا۔ اس موسم گرما میں چین میں برف باری ہوئی، فصلیں تباہ ہو گئیں اور لوگ بھوکوں مرنے لگے۔آئرلینڈ کی تاریخ میں درج ہے کہ سال 536-539ء میں روٹی ملنا ناممکن بن گیا تھا۔ پھر سال 541ء میں مصر کے ساحلی شہر الفَرَما میں گِلٹی دار طاعون پھیل گیا۔ جو تیزی سے پھیلا اور اس کے نتیجے میں رومن سلطنت کی آدھی سے لے کر ایک تہائی تک کی آبادی شکار ہو گئی اور یہی سلطنت کے ٹوٹنے کی وجہ بھی بنی۔ (واضح رہے کہ اس سے پہلے رومن سلطنت یورپ سے لے کر مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی تھی)۔ گلیشیر سے حاصل کردہ برف کے ٹکڑے پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت آئس لینڈ یا شاید شمالی امریکہ میں آتش فشاں پھٹا تھا، جس کی وجہ سے نصف شمالی کرئہ ارض پر راکھ پھیل گئی تھی۔ محققین کے خیال میں یہ آتش فشانی دھند سرد موسم کے ہمراہ ہواؤں کے ساتھ یورپ اور بعد میں ایشیا میں پھیل گئی۔ اس کے بعد 540ء اور 547ء میں دو مزید بڑے آتش فشاں پھٹے۔ بار بار آتش فشاں پھٹنے اور اس کے بعد طاعون کی وجہ سے یورپ سمیت دنیا کا بڑا حصہ معاشی جمود کا شکار ہو گیا۔ انسانی تاریخ کی یہ بڑی تباہی تھی، جس نے اس وقت دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا، دنیا عملی طور پر تاریک ہو چکی تھی۔ تحقیق کاروں نے یہ تو نہیں بتایا اور شاید اس تک پہنچنا آسان بھی نہیں کہ یہ تاریک اور بھوک کا دور دنیا سے کب ختم ہونا شروع ہوا، لیکن یہ بات ہمارا دل کہتا ہے اور تاریخ کے اوراق سے بھی مل سکتی ہے کہ اس بڑی تباہی کے چھٹنے کا آغاز، تاریکی سے روشنی کا سفر اس واقعہ کے تقریباً 23 برس بعد شروع ہوا، جب570 عیسوی میں حضور اکرمؐ کی ولادت ہوئی۔ آپؐ کی ولادت سے قبل عرب میں سخت قحط سالی کا جو دور دورہ تھا، وہ بھی اس عالمگیر تباہی کا شاخسانہ تھا۔ چنانچہ آپؐ کی رضاعی ماں سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کا یہ بیان سیرت کی متعدد کتب میں درج ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا دودھ پیتا بچہ لے کر بنی سعد کی کچھ عورتوں کے قافلے میں اپنے شہر سے باہر دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں۔ یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا۔ فرماتی ہیں: میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی، لیکن بخدا! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا۔ اِدھر بھوک سے بچہ اس قدر بلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی۔ بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دبلے پن کی وجہ سے چلنے سے قاصر تھی۔ مگر جب آپؐ کو لے کر واپس ہوئی تو وہی گدھی سب سے آگے نکل گئی۔ حلیمہ سعدیہؓ کے علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے بکریوں کے تھن سوکھ چکے تھے۔ مگر آپؐ کی برکت سے حلیمہؓ کی بکریاں دودھ سے لبریز ہو کر گھر آتیں۔ یہ سب تفصیلات سیر کے مشہور امام، ابن اسحاقؒ نے نقل کی ہیں۔ جبکہ جاہلیت کا زمانہ پانے والے سیدنا عمرو بن معدیکربؓ سمیت متعدد صحابہ کرامؓ نے بھی قحط سالی کا نقشہ کھینچا ہے۔
آپؐ دنیا کے لئے رحمت للعالمین بن کر آئے۔ اسی دوران دنیا پھر جمود سے نکل کر آگے بڑھنا شروع ہوئی تھی، کاروبار چل پڑے تھے اور جب نبی کریمؐ جوان ہوئے تو آپ بھی تجارتی قافلے کے ساتھ گئے تھے، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ رحمت للعالمین کے آنے کے بعد اس دنیا پر اتنی بڑی قدرتی آفت کبھی نہیں آئی، باوجود اس کے کہ گزشتہ ایک صدی میں انسانوں نے اس دنیا کا فطری نظام بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بموں کے استعمال سے لے کر آلودگی پھیلانے اور قدرتی وسائل کے بے دردی سے استعمال تک انسانوں نے تباہی کو دعوت دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا، لیکن پھر بھی دنیا چھٹی صدی عیسوی جیسی کسی تباہی سے اب تک محفوظ ہے۔ یہ صرف رب العالمین کا اپنی مخلوق پر کرم ہے کہ جب سے اس نے دنیا میں اپنے محبوبؐ کو بھیجا ہے، اس کے بعد کوئی بڑی آفت نہیں آئی۔
مگر دوسری طرف انسانوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ قدرت کے نظام میں مداخلت کی کوششیں کرکے اس کے عذاب کو دعوت دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ تازہ معاملہ چینی سائنسدان کا سامنے آیا ہے، جس نے دو جینٹک بچوں کی پیدائش کا دعویٰ کیا ہے۔ پیدائش سے قبل ان بچوں کے جینز میں یہ کہہ کر ردو بدل کیا گیاکہ اس تبدیلی کی وجہ سے وہ کبھی ایڈز کا شکار نہیں ہوں گے، اس پر دنیا بھر میں شدید ردعمل بھی آیا ہے، جس کے بعد چینی حکومت نے سائنسدان کو مزید تجربات سے روکنے کا اعلان کیا ہے، لیکن چینی سائنسدان نہ تو ایسی حرکت کرنے والا پہلا فرد ہے اور نہ ہی آخری، اس لئے خدشہ ہے کہ مزید ایسے تجربات کرنے والے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے، کھلے یا چھپے وہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں گے، حالاں کہ سمجھدار سائنسدان بار بار انتباہ کر رہے ہیں کہ انسانوں کی پیدائش کے عمل میں مداخلت سے باز رہنے میں ہی عافیت ہے، ورنہ بیماریوں سے پاک انسانوں کی پیدائش کی خواہش ایک ایسا راستہ کھول دے گی، جس سے انسان کا وجود ہی خطرے میں پڑسکتا ہے، انسانوں میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج تو انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے، کرتا آیا ہے، لیکن امراض فری انسان کی خواہش رکھنے والے سائنسدانوں نے جینٹک تجربات بند نہ کئے، قدرت کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرتے رہے، تو یہ جینٹک انسان دنیا میں ایسے امراض پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں، جن کا کوئی علاج دستیاب نہیں ہوگا اور وہ انسانی آبادی کو نگل سکتے ہیں۔
انسان نے گزشتہ ڈیڑھ صدی میں تو پہلے ہی اپنے ساتھ بہت چھیڑ چھاڑ کرلی ہے، اب مزید کی گنجائش نہیں بچی، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ گزشتہ دنوں نے ایک امریکی مشنری کا نمائندہ بھارت کے جزائز انڈیمان کے ایک دور دراز جزیرے کے قبائلیوں کو عیسائیت کی دعوت دینے گیا اور وہاں مقامی لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ سیشل یا سیتل نامی اس جزیرے کی آبادی کا اندازہ ڈیڑھ سو لگایا گیا ہے، اس جزیرے کے لوگ باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور وہ آج بھی عملی طور پر پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔ شکار کرکے وہ پیٹ بھرتے ہیں، کپڑوں وغیرہ سے بھی وہ نا آشنا ہیں، نیزے اور پتھر ان کا ہتھیار ہیں، اس جزیرے میں کم از کم گزشتہ دو تین صدیوں میں باہر سے کوئی نہیں گیا اور نہ ہی وہ اپنے جزیرے سے باہر نکلتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post