امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کے حوالے سے مدد کرے اور افغان طالبان کو گفت و شنید پر آمادہ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ امریکی صدر نے اس ’’خواہش‘‘ کا بھی اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں سترہ برس سے جاری خون ریزی کا خاتمہ ہو کر امن قائم ہو۔ وزیر اعظم عمران خان نے پیر کے روز سینئر صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے موصول ہونے والے خط کا تذکرہ کیا۔ دوسری جانب افغانستان کیلئے امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے بھی اتوار سے خطے کا دورہ شروع کر دیا ہے۔ وہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان، افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے۔ جبکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے بھی کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایک 12 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پے درپے پاکستان پر سنگین الزامات لگانے اور اس کے کردار کی نفی کے بعد پھر اسی سے مدد مانگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹرمپ نے ٹیوٹر کے ذریعے الزام عائد کیا تھا کہ ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیئے، مگر اس نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کیا، اب مزید ڈالر نہیں دیں گے۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے انہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا اور دونوں رہنمائوں کے مابین لفظی جنگ چھڑ گئی۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے اس جنگ میں پچھتر ہزار افراد کی جانیں گنوائیں اور معیشت کو ایک سو تیئس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ جبکہ اس کے بدلے امریکہ سے ملنے والی امداد محض بیس ارب ڈالر ہے۔ حالانکہ یہ کوئی امداد بھی نہیں، کولیشن سپورٹ فنڈ ہے۔ جو افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کیلئے اشیائے ضرورت پاکستانی بندرگاہوں سے افغان بارڈر تک پہنچانے کا معاوضہ ہے۔ یہ فنڈ بھی امریکی کانگریس نے مئی دو ہزار سولہ سے بند کر رکھا ہے۔ اس کے بعد رسائی کی مد میں پاکستان نے جو رقم خرچ کی ہے، وہ امریکہ کے ذمے واجب الادا ہے۔ تمام تر الزام تراشیوں کے باوجود امریکی انتظامیہ کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان کی مدد و تعاون کے بغیر افغانستان کی دلدل سے نکلنا محال ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہاں طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ امریکہ کو سوائے جالی و مالی نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آ رہا۔ گزشتہ ہفتے ہی غزنی میں تین امریکی سپاہی ہلاک ہو گئے۔ اقتدار سنبھال کر ڈونالڈ ٹرمپ افغان جنگ جیتنے کے حوالے سے بڑے پر امید تھے۔ نئی افغان پالیسی کا اعلان کرکے انہوں نے جنرل ملر کو اس امید پر افغانستان بھیجا تھا کہ یہ دبنگ جنرل افغان طالبان کا وجود مٹی میں ملا دیں گے۔ اس سفاک جنرل نے بھی سترہ برسوں سے جاری طاقت کے وحشیانہ استعمال کی ناکام پالیسی اپنائی اور جنگ زدہ افغانستان میں تباہی کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ مگر جلد ہی ڈونالڈ ٹرمپ کو اندازہ ہوگیا کہ جنگ دنیا کی سب سے مہنگی مہم جوئی ہے۔ اس لئے امریکی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان سالانہ پینتالیس ارب ڈالر اس بے مقصد جنگ پر خرچ کر رہے ہیں۔ اب تک سات سو ارب ڈالر سے زائد کی رقم افغان جنگ پر پھونکی جا چکی ہے۔ اگر امریکہ یہ رقم کسی مثبت مقصد کیلئے خرچ کرتا تو دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی۔ امریکہ کا امیج بہتر ہوتا اور کروڑوں انسانوں کا بھلا ہو جاتا۔ خود امریکی سینیٹرز بھی اس جنگ پر اٹھنے والے اخراجات پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ایڈمیراکی کا کہنا ہے کہ اگر افغان جنگ پر خرچ ہونے والی صرف دو ماہ کی رقم بچائی جائے تو امریکہ کی ہر کاؤنٹی میں منشیات سے بحالی کا مرکز قائم ہو سکتا ہے۔ مگر انا نے امریکہ کو اپنی شکست تسلیم کر کے افغانستان سے بوریا بستر گول کرنے نہیں دیا۔ تاہم دیر آید درست آید۔ اب اگر ’’چاچا سام‘‘ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے خط میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ بھی سمجھ گیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہم افغانستان میں قیام امن کیلئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ ماضی میں امریکہ کے ساتھ معذرت خواہانہ رویہ اپنایا گیا۔ لیکن ہم نے امریکہ کو برابری کی سطح پر جواب دیا۔ افغانستان میں قیام امن خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان ماضی میں بھی اپنا کرتا رہا ہے۔ ہماری سیاسی و عسکری قیادت متعدد بار کابل کا دورہ کر کے اس حوالے سے عملی اقدامات بھی کرتی رہی ہے۔ باقی اشرف غنی حکومت کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کابل پر اقتدار کا اصل مالک امریکہ ہے۔ لیکن امریکہ طالبان سے مذاکرات میں کتنا سنجیدہ ہے؟ اس کا اندازہ اس کے عملی اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف تو وہ مذاکرات کا ڈول پیٹ رہا ہے۔ تو دوسری جانب نہتے افغان باشندوں پر آتش و آہن برسانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اتوار کے روز ہی ہلمند اور پکتیا میں بمباری کر کے بیس افراد کو شہید کر دیا گیا۔ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ ڈرون حملے میں طالبان کے شیڈو گورنر ہلمند کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بمباری اور تباہ کن حملوں کے ساتھ کسی کمزور فریق کو بھی مذاکرات کی میز پر لانے کی خواہش بچکانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جب کسی سے گفت و شنید کا ارادہ ہو تو اسے بہت سے معاملات میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ امریکی سینیٹر جیف مرکلی کے بقول طالبان تو فاتح قوت ہیں۔ اس لئے مذاکرات ان کی شرائط پر ہی ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان طالبان کو اس کی شرائط پر مذاکرات کی میز پر لائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ طالبان کی اولین شرط غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہے۔ اگر امریکہ فی الوقت افغانستان سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا یا اسے نقصان دہ سمجھتا ہے تو طالبان اس سے ایک ڈیڈ لائن مانگتے ہیں کہ کب وہ افغان سرزمین چھوڑ دے گا۔ لیکن اگر امریکی افواج وہاں موجود رہیں اور ان کی جانب سے طاقت کا وحشیانہ استعمال بھی جاری رہے، تو مذاکرات کی بیل کبھی منڈھے چڑھنے کا امکان نہیں ہے۔ ڈائیلاگ کی امریکی خواہش حوصلہ افزا اور اچھی پیش رفت ہے۔ مگر اس کیلئے اسے غیر مشروط طور پر بمباری اور حملوں کا سلسلہ بند کرنا چاہئے۔٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post