عوامی دبائوپر آبادیوں کے خلاف آپریشن سے حکومت پسپا

0

کراچی (اسٹاف رپورٹر)عوامی دباؤ پرسندھ حکومت آبادیوں کیخلاف آپریشن سے پسپا ہو گئی۔ حساس اداروں نے بھی بے چینی کی رپورٹ دی تھی۔تاجروں کا احتجاج رنگ لے آیا۔تجاوزات کیخلاف کارروائی میں متاثر ہونے والوں دکانداروں کومتبادل جگہیں فراہم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔بحالی کیلئے کمیٹی قائم کردی گئی۔صوبائی وزیربلدیات سعید غنی نے کہا ہے کہ سرکلر ریلوے کی زدمیں آنے والے گھروں یا کاروبار کوبسایا جائیگا۔دکانیں قانون کے مطابق ریگولرائز کروانے کا موقع دینگے۔دوسری جانب جماعت اسلامی نے کراچی میں ہزاروں افرادبیروزگار کرنے کیخلاف سینیٹ میں قرارداد جمع کرادی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پیر کے روز سندھ تاجر اتحاد کے تحت آرام باغ میں منعقدہ تاجر کنونشن سے خطاب اورتاجروں کے سوالات کے جواب میں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ تجاوزات کیخلاف آپریشن سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کیا جارہا ہے۔عدالتی فیصلوں کے باعث اگر کچھ مشکلات عوام اور بالخصوص تاجروں کو درپیش ہیں تو ان کا ازالہ کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ شہر اور صوبے کے مسائل کے حل میں مئیر کراچی اور مجھ میں کوئی سیاسی اختلاف نہیں ،ہماری ایک ہی ترجیح ہے کہ جلد سے جلد متاثرین کو بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم نے اسکولوں کے حوالے سے اپنا واضح موقف دیا ہے کہ انہیں نہیں توڑا جائے گا۔اسی طرح کسی بھی آبادی کو مسمار نہیں کیا جائے گااور اگر اس سلسلے میں عدلیہ کی جانب سے کوئی ہدایات ملیں تو سندھ حکومت خود عدالتوں سے رجوع کرے گی۔انہوں نے کہا کہ فٹ پاتھوں، نالوں، رفاعی پلاٹس، پارکس اور پلے گراؤنڈز کے حوالے سے ہم عدالتی احکامات کی مکمل پاسداری کررہے ہیں اور اس میں کچھ کاروباری افراد متاثر بھی ہورہے ہیں۔سعید غنی نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے سندھ حکومت نے کام شرو ع کردیا ہے۔ اس سے بھی ہزاروں افراد متاثر ہوں گے، لیکن جو گھر یا کاروبار زد میں آئینگے ان کو لیاری ایکسپریس وے کی طرز پر بسایا جائے گا۔انہوں نے کہا ایس بی سی اے کی جانب سےجن دکانداروں کو نوٹسز ملیں ہیں اس پر بھی غور کیا جارہا ہے اور جہاں قانون کے مطابق وہ اپنے آپ کو ریگولرائز کرواسکتے ہوں گے انہیں ضرور موقع دیا جائے گا ،البتہ جن شاپنگ سینٹرز اور بلڈنگوں میں پارکنگ کے لئے مختص فلورز پر گودام یا دکانیں بنائی گئی ہیں انہیں کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ میں عوام سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے گھر یا کاروبار کے لئے جگہ کی خریداری سے قبل اس بات کو یقینی بنالیں کہ وہ جو زندگی بھر کی جمع پونجی لگا رہے ہیں وہ قانونی جگہ پر لگا رہے ہیں یا نہیں۔ مئیر کراچی وسیم اختر بھی صوبائی وزیر بلدیات کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر اتحاد کے چیئرمین جمیل احمد پراچہ، عبدالرحمان، کاشف صابرانی، شرجیل گوپلانی سمیت دیگر تاجر رہنمائوں نے صوبائی وزیر کو تاجروں کو حالیہ آپریشن کے نتیجہ میں درپیش مسائل اور تحفظات سے آگاہ کیا۔ تاجر رہنماؤں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی سیاسی وابستگی یا کسی سیاسی جماعت کی باتوں میں آنے کی بجائے اپنا کیس وزیر بلدیات سندھ اور مئیر کراچی کے سامنے پیش کریں گے۔قبل ازیں کمشنر ہاؤس کراچی میں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کی زیر صدارت متاثرین تجاوزات آپریشن کے حوالے سے اجلاس ہوا جس میں مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب، وقار مہدی، میئر کراچی وسیم اختر سمیت کے ایم سی کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متاثرہ تاجروں کی بحالی کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی گئی۔اس موقع پرصوبائی وزیر کو بتایا گیا کہ کے ایم سی کے ریکارڈ میں کرایہ دار دکانداروں کی تعداد 3575ے، توڑی گئی دکانوں کے ملبے، فٹ پاتھوں کی تعمیر اور دیگر سڑکوں کے پیچ ورک اور شہر کی بیوٹیفیکیشن کی مد میں کے ایم سی کو گرانٹ کی ضرورت ہوگی اور اس سلسلے میں انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کے لئے سمری بھی تیار کی ہے۔ اس موقع پر سعید غنی نے کہا کہ کے ایم سی کے ریکارڈ کی مکمل اسکروٹنی اور متاثرین سے بھی اس پورے ریکارڈ کی تفصیلات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے، جس کے سربراہ صوبائی مشیر وقار مہدی ہوں گے جبکہ ممبران میں میونسپل کمشنر کے ایم سی اور ڈی سی ساؤتھ ہوں گے اور یہ کمیٹی آئندہ 3روز میں اپنی سفارشات مرتب کرکے انہیں پیش کرے گی، جس کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں کے ایم سی، کے ڈی اے سمیت سندھ حکومت کی دستیاب زمینوں پر مارکیٹوں میں ان دکانداروں کو شفٹ کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دکانیں فوری طور پر پکی نہیں بنائی جائیں گی بلکہ وہاں شیڈز اور دیگر کی مدد سے دکانیں بنا کر تاجروں کو فوری کاروبار شروع کرنے کے لئے جگہ فراہم کی جائے گی۔ سعید غنی نے کہا کہ پہلے مرحلے میں وہ دکاندار جو کے ایم سی کے کرایہ دار تھے اور ان کے پاس اس کے شواہد موجود ہیں ان 3500دکانداروں کو وہاں شفٹ کیا جائے گا جبکہ دیگر مرحلوں میں ان دکانداروں کو جو قانونی طور پر کرایہ دار تو نہیں تھے تاہم وہ سالہا سال سے وہاں کاروبار کررہے تھے ان کو جگہ فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کو بھی بے روزگار نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ آئندہ کوئی ایسا فیصلہ آئے کہ ہمیں ان تاجروں کو دوبارہ وہاں سے ہٹانا پڑے اس لئے تمام قانونی تقاضوں کو بھی پورا کیا جارہا ہے۔اس موقع پر انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ سندھ کابینہ میں بھی اس سلسلے میں تفصیلی بحث میں وزیر اعلیٰ سندھ نے اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایات دی ہیں ، جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اجلاس میں کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے بھی بریفنگ لی اور کمشنر کراچی اور ایم سی کے ایم سی کو ہدایات دیں کہ متاثرین سے ملاقات کرکے انہیں ریلیف کی یقین دہانی کرائیں۔دریں اثنا امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق اور امیر جماعت اسلامی خیبر پختون سینیٹر مشتاق احمد خان نے کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم کے نام پر ہزاروں افراد کو بے روزگار اور بے گھر کر نے، املاک کو نقصان پہنچانے اور کے ایم سی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے مسلسل جاری کارروائیوں کے باعث شہریوں اور بالخصوص چھوٹے تاجروں اور عام دکانداروں میں پائے جانے والے خوف و ہراس کے حوالے سے سینیٹ میں قرارداد جمع کرادی ہے ، جس میں نقصانات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کے خاتمے کے نام پر جاری مہم کو فی الفور رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے اور جس حد تک ممکن ہو ان تعمیرات کو ریگولرائز کرنے پر توجہ دے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کے ایم سی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ریلوے کی طرف سے اب تک کی کارروائی سے دس لاکھ سے زائد شہریوں کے کاروبار، رہائش گا ہیں اور تعلیم خطرے سے دو چار ہوگئی ہے ۔کم و بیش 6000دکانیں، جن میں سے 3500سے زائد قانونی تھیں منہدم کی جا چکی ہیں اور مزید 9000کے انہدام کے لیے اعلانات کیے گئے ہیں۔ صرف دو گھنٹے کے نوٹس پر زبانی اعلانات کے بعد سامان سمیت دو کانوں کا انہدام غیر قانونی، بلکہ عوام دشمن اور قابل مذمت ہے ،یہ معاملہ بھی حیرت کا باعث ہے کہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لانے کی بجائے ان ہی کے ہاتھوں یہ تعمیرات/ تجاوزات گرائی جارہی ہیں جس سے یہ ساراعمل قانون اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہو گیا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ غیر قانونی طور پر کی گئی تعمیرات و تجاوزات ضرورہٹائی جائیں ،لیکن ضابطے کی کارروائی اور انصاف کے تقاضوں کوملحوظ خاطر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان تعمیرات سے وابستہ افراد کے متبادل روزگار ورہائش کے لیے بھی کوئی میکانزم تشکیل دیا جائے۔ نیز جن لوگوں نے قانونی تقاضوں کو پورا کر کے تعمیرات کی ہیں ان کے خلاف کارروائی کو فی الفور بند کیا جائے۔علاوہ ازیں سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے ضرورت سے زیادہ کارروائی ہرگز نہ کی جائے۔یہ پہلو بھی افسوس ناک ہے کہ بڑے بنگلوں کی ریگولرائزیشن اور چھوٹی آبادیوں کے خلاف کارروائی کی جاری ہے۔ جو کہ سماجی تقسیم اور معاشرتی تباہی کا باعث بنے گی چونکہ متاثر ہونے والا ہرشخص پاکستانی شہری ہے، لہذا اس کو روزگار اور شیلٹر کی فراہمی اور تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

 

کراچی(رپورٹ:محمد نعمان اشرف)بلدیہ ٹاؤن میں کے ایم سی کی 4 ایکڑ اراضی پر قائم غیر قانونی شادی ہالوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے بلدیہ 24 مارکیٹ اور اس کے اطراف میں آپریشن کیا گیا۔متحدہ کی تجاوزات کو ختم کرنے کے بجائے عملے نے چبوتروں اور سائن بورڈ زکے خلاف کارروائی شروع کردی۔ماضی میں تجاوزات کے خلاف نمائشی آپریشن کے بعد ڈی ایم سی غربی کی انتظامیہ بھتے میں اضافہ کرکے تجاوزات دوبارہ قائم کرواتی رہی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سابق میئر کراچی مصطفی کمال کے دور میں بلدیہ ٹاؤن سیکڑ 4ایف چلڈرن پارک ایس ٹی نمبر 1کی ہزاروں گز اراضی پر قبضہ کرکے شادی ہالز بنائے گئے۔ مذکورہ اراضی پارک کے لیے مختص تھی۔ایس ٹی نمبر 1 کے بالمقابل کمرشل پلاٹس کی ہزاروں گز اراضی پر بھی چائنا کٹنگ کرکے غیر قانونی شادی ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ چلڈرن پارک کی 1500گز کی اراضی پر قبضہ کرکے بینش شادی لان تعمیر کیا گیا۔چلڈرن پارک کی اراضی پر قائم شاہی دربار نامی شادی لان 1500گز اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے ۔بابا لان، نازیہ لان ،سونالان سمیت دیگر شادی ہالز بھی چلڈرن پارک کی ہزاروں گز اراضی پر قبضہ کرکے تعمیر کیے گئے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ رفاعی اراضی کے 2ہزار گز پر مہک لان ون اور لان ٹو تعمیر کیا گیا ہے۔اس سے متصل علی کیسل شادی لان ہزار گز پر قائم ہے۔بلدیہ ٹاؤن کے سابق ناظم اور ایم پی اے کامران اختر نے مذکورہ شادی ہالوں کو جعلی لیز کے ذریعے قانونی شکل دینے کی کوشش کی۔مذکورہ شادی ہالز سے متحدہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر کے کارکنان ہفتہ وصولی کرکے لندن قیادت تک پہنچا تے تھے۔ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن سیکٹر کا بدنام زمانہ کارکن اسماعیل عرف گلو تین شادی ہالوں اور 24سے زائد غیر قانونی پلاٹوں پر قائم تجاوزات کا مالک ہے ، ماضی میں متحدہ لندن کے لیے کام کرنے پر کامران اختر اور متحدہ کی دیگر قیادت نے اسماعیل عرف گلو کو شادی ہالز تحفے میں دیے تھے۔ذرائع نے بتایا کہ کراچی آپریشن کے بعد متحدہ کے دہشت گرد اور قیادت بلدیہ ٹاؤن سے فرار ہوگئی تھی، جس کے بعد شادی لان مالکان نے متحدہ کو بھتہ دینا بند کردیا تھا، تاہم گزشتہ سال ان شادی ہالز کے خلاف انسداد تجاوزات عملے نے نمائشی آپریشن کیا، جس پر شادی ہالوں کے مالکان نے کے ایم سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو 20لاکھ روپے رشوت دے کر آپریشن کو رکوایا۔ذرائع نے بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر نے متحدہ کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے ڈھائی کروڑ روپے بھتے پر معاملات طے کروائے، جس کے بعد کے ایم سی کے محکمہ انسداد تجاوزات کی ٹیم نے مذکورہ شادی ہالز کا نام غیر قانونی تعمیرات کی لسٹ سے نکال دیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز بلدیہ ٹاؤن میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران ٹیم کو میئر کراچی و دیگر حکام نے ہدایات دے رکھی تھیں کہ ان شادی ہالز کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کی جائے۔عملے نے شادی ہالوں کو چھوڑ کر 24مارکیٹ میں آپریشن کرکے درجنوں چبوترے اور دیگر تجاوزات مسمار کردیں، جب کہ مارکیٹ میں متحدہ کے لگائے گئے ٹھیلے، پتھارے اور دیگر دکانوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔خبر پر موقف کے لیے ڈائریکٹر انکروچمنٹ بشیر صدیقی سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی، جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر معین غوری نے رابطے پر بتایا کہ بلدیہ 24مارکیٹ میں آپریشن کرکے سیکڑوں تجاوزات کو مسمار کیا گیا ہے۔بلدیہ ٹاؤن میں 4ایکڑ اراضی پر قائم غیر قانونی شادی ہالوں کے خلاف پہلے بھی کارروائی کی گئی تھی، تاہم آپریشن روک دیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ڈی ایم سی غربی کے عملے کی نشاندہی پر تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر بلدیہ کے علم میں یہ بات لائی جائے گی کہ چلڈرن پارک پر غیر قانونی شادی ہالز قائم ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More