حضرت مسلم بن یسارؒ جب نماز پڑھتے تھے تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے، نیز انہوں نے اپنے اہل خانہ کو کہہ دیا تھا کہ جب مجھے نماز پڑھتے دیکھو تو اپنی آوازوں کو بلند کر لیا کرو، کیوں کہ جب میں نماز میں ہوتا ہوں تو تمہاری باتیں نہیں سنتا۔
اتفاق سے ایک دن یہ بزرگ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کا ایک حصہ گر پڑا، یہ صورت حال دیکھ کر لوگوں نے شور مچایا اور فی الفور مسجد سے باہر نکل گئے، لیکن آپؓ کو اس واقعے کی اطلاع بھی نہ ہوئی۔ (اولیاء کے اخلاق، صفحہ نمبر 167)
حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ خانہ کعبہ کے طواف میں مصروف تھے، میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو حجر اسود کے قریب کھڑی ہوئی رو رہی تھیں اور یہ فرما رہی تھیں: اے میرے خدا! مجھ پر رحم فرما، اے میرے خدا! مجھ پر رحم فرما، میں تیرے دربار میں بہت دور سے آئی ہوں، اے میرے پروردگار! میں تیرے رحم و کرم کی امید پر آئی ہوں کہ تو مجھ کو اس دنیا میں کسی کا محتاج نہ بنا۔
مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے اس عورت کی یہ الحاح و زاری دیکھی تو اس کی رہائش گاہ پہنچے تاکہ اس کے مزید حالات معلوم کر سکیں، جب کچھ گفتگو ہو چکی تو تھوڑی دیر بعد ان خاتون نے فرمایا، اب آپ لوگ تشریف لے جایئے، اتنی دیر تک آپ نے مجھ کو رب کی عبادت سے محروم رکھا۔ (صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی، صفحہ نمبر 113ج 2) اشاعت اسلام کا اصل سبب!
ایڈور ڈینی سن رانس نے جارج سیل کے انگریزی ترجمے قرآن پر ایک مقدمہ لکھا اور ایک جگہ لکھا:
صدیوں سے اہل یورپ کو اسلام کے بارے میں جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں، وہ تقریباً تمام تر متعصب عیسائیوں کے ان بیانات پر مبنی ہیں، جنہوں نے شدید غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ اسلام میں جو خوبیاں تھیں، انہیں بالکل نظر انداز کر دیا اور جو چیزیں اہل یورپ کی نگاہ میں اچھی نہ تھیں، انہیں بڑھا، چڑھا کر اور غلط تشریحات کے ساتھ پیش کیا گیا۔
تاہم یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ محمدؐ کا وہ بنیادی عقیدہ، جس کی انہوں نے تبلیغ کی، خواہ وہ تبلیغ عرب کے معاصر باشندوں کو کی جو ستارہ پرست تھے، وہ ایرانیوں کو جو یزدان اور اہرمن پر ایمان رکھتے تھے، خواہ اہل ہند کی ہو، جو بت پرست تھے اور خواہ ترکوں کو کی جو عبادت کا کوئی مخصوص طریقے نہیں رکھتے تھے۔ یہ تبلیغ بہرحال توحید خداوندی کی تبلیغ تھی۔ (کتابوں کی درسگاہ میں)