کعبہ مشرفہ کے اسپیشل زائرین

0

ضیا الرحمٰن چترالی
معذورین کے عالمی دن کے موقع پر مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کے امور کی جنرل پریذیڈنسی نے پیر کے روز حرم شریف کے مطاف کا صحن دو گھنٹے کے لیے خصوصی افراد کے واسطے مختص کر دیا۔ اس موقع پر پہلے تمام متعلقہ افراد کو شاہ فہد توسیع کے حصے میں لے جایا گیا۔ وہاں عمرے کے حوالے سے تفصیلی لیکچر کے بعد متعلقہ لٹریچر پر مشتمل کتابیں بھی تقسیم کی گئیں۔
العربیہ کے مطابق مسجد حرام کی جنرل پریذیڈنسی نے سماعت اور گویائی سے محروم افراد کیلئے نماز کی علیحدہ جگہ بھی تیار کی ہے۔ یہاں اشاروں کی زبان کے متعدد مترجم موجود ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جمعہ، عیدین اور استسقاء کے خطبوں کے علاوہ مسجد حرام کے اندر درس اور مواعظ کے موقع پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح حرم شریف میں قرآن کریم کی تعلیم کے حلقوں کے سلسلے میں معلمین تیار کرنے کے ساتھ ان میں اشاروں کی زبان کی مہارت بھی پیدا کی جاتی ہے۔
جنرل پریذیڈنسی نے مسجد حرام میں بڑوں اور چھوٹوں کیلئے رہ نمائی کی علامات بھی مقرر کی ہیں جو سماعت سے محروم خصوصی افراد کیلئے مختصر انداز میں حرم کے مقامات کو جامع طور پر واضح کرتی ہیں۔ حرم کی انتظامیہ نے بینائی سے محروم خصوصی افراد کیلئے سفید چھڑی بھی فراہم کی ہے تاکہ وہ اپنے لیے مخصوص نماز کی جگہ پر پہنچ سکیں۔ نابینا افراد کو حج کے دوران ایک خصوصی کٹ بیگ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس میں بریل میں تیار کردہ قرآن کریم اور کتابوں کے علاوہ حرم مکی اور مقامات مقدسہ کے نقشہ جات موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح بیگ میں الکٹرونک قلم کے ذریعے پڑھا جانے والا قرآن کریم اور نابینا افراد کو نمازوں کے اوقات داخل ہونے کا احساس دلانے والی گھڑی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ مزید برآں ’’سقیا زمزم‘‘کی انتظامیہ نے زمزم کے کولروں کے واسطے خصوصی کرسیوں کا انتظام بھی کیا ہوا ہے، جو نقل و حرکت سے قاصر افراد کے کام آتی ہیں۔
ان کے علاوہ مسجد حرام میں معذور افراد کی نقل و حرکت کیلئے خصوصی گاڑیاں بھی موجود رہتی ہیں جو طواف اور سعی میں خاص طور پر ان افراد کی مدد کرتی ہیں۔ عمرہ اور حج سیزن کے دوران عمر رسیدہ افراد کے واسطے ہدیے کے طور پر آرام دہ جائے نماز بھی پیش کی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More