خلافت فاروقی میں بیت المقدس کی مہم حضرت عمروؓ بن العاص کے سپرد تھی، معرکہ یرموک میں اہل اسلام کی عظیم فتح کے بعد رومیوں کی ساری توجہ بیت المقدس پر مرکوز ہوگئی، حضرت عمروؓ بن العاص نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا، عیسائی قلعہ بند ہو کر مقابلہ کرنے لگے۔
اسی اثناء میں حضرت ابو عبیدہؓ اسلامی افواج کے سپاہ سالار اعظم بھی حضرت عمروؓ بن العاص سے آملے، عیسائیوں نے کچھ دیر تک مقابلہ کیا، لیکن ان کی ہمت جواب دے گئی تھی، لہٰذا انہوں نے ایک شرط پر صلح کے لیے آمادگی ظاہر کی، امیر المومنینؓ کو ساری صورت حال کی اطلاع دی گئی، ان کی شرط یہ تھی کہ مسلمانوں کے امیر خود آکر معاہدہ صلح مرتب کریں۔
چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے صحابہؓ کے مشورے سے عیسائیوں کی اس شرط کو منظور کرکے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر 16ھ میں بیت المقدس کو روانہ ہوئے، یہ سفر ان کی سادگی، خدا ترسی، جذبہ خدمت اور اسلامی روح کے اظہار کی منہ بولتی تصویر تھا، صرف ایک غلام کو ساتھ لیا تھا، زاد راہ کے طور پر ستو کی تھیلی اور سواری کے لیے ایک اونٹ تھا، اسی اونٹ پر باری باری سے امیر المومنینؓ اور خادم سوار ہوتے تھے۔
جابیہ کے مقام پر عیسائیوں کے ساتھ وہ تاریخی معاہدہ ہوا، جو اسلامی رواداری، غیر مسلموں سے فیاضانہ برتاؤ اور اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا کی حیرت انگیز مذہبی آزادی کی عظیم دستاویز کے طور پر مشہور ہے۔ مفتوحہ علاقے کے غیر مسلموں کو جان، مال اور مذہب تینوں چیزوں کا واضح تحفظ دیا گیا۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد امیر المومنینؓ بیت المقدس روانہ ہوئے، اسلامی فوج کے افسروں نے شہر کے باہر آپ کا استقبال کیا۔
عیسائی رعایا مسلمانوں کے امیر کو دیکھنے کے لیے امنڈ آئی تھی، جناب حضرت عمرؓ کا لباس اتنا معمولی اور فرسودہ تھا کہ مسلمانوں کو اسے دیکھ کر اس خیال سے شرم آرہی تھی کہ غیر مسلم انہیں اس لباس میں دیکھ کر کیا کہیں گے! عمائد فوج نے ایک ترکی گھوڑا اور قیمتی نئی پوشاک پیش کی۔ لیکن حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر دونوں چیزیں لوٹا دیں کہ خدا تعالیٰ نے جو عزت ہمیں دی ہے، وہ اسلام کی وجہ سے ہے اور یہی عزت ہمارے لیے کافی ہے، کسی اور مصنوعی ٹھاٹھ اور جعلی عزت کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ وہ اسی لباس میں بیت المقدس میں داخل ہوئے، ادھر عیسائی پادری راستے میں کھڑے آپ کے شہر میں داخلے کا نظارہ کر رہے تھے، انہوں نے گواہی دی کہ واقعی ہمارے مذہبی نوشتوں کے مطابق یہی شخص ہے، جسے بیت المقدس کی کنجیاں دی جانی چاہیے تھیں، چنانچہ انہوں نے چابیاں ان کے حوالے کردیں۔ (تاریخ اسلام کہانیاں صفحہ نمبر 34)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post