تحریک لبیک کے 10 ہزار اسیر کارکنان بنیادی سہولیات سے محروم

0

عظمت علی رحمانی
حکومت کی جانب سے ملک بھر میں تحریک لبیک پاکستان کے ہزاروں قیدیوں کو اہل خانہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ صوبائی ہوم سیکرٹریز کی جانب سے بھی سہولیات فراہم کرنے کے معاملے کو لٹکایا جا رہا ہے۔ جیلوں میں کپڑے، ادویات اور دیگر اشیا پہنچانے میں بھی شدید دشواری کا سامنا ہے۔
حکومت کی جانب سے ملک بھر میں تحریک لبیک کے کارکنان کے خلاف کریکٹ ڈاؤن جاری ہے۔ تحریک لبیک کے قیدیوں کیلئے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے، جن میں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور قصور کے 4 ہزار 800 کے لگ بھگ کارکنان بھی شامل ہیں، جنہیں ایم پی او کے تحت ایک ایک ماہ کیلئے قید رکھا گیا ہے۔ جبکہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت قید ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ سندھ میں قید ہونے والوں کی تعداد 159 جبکہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت قید ہونے والوں کی تعداد اس سے علیحدہ ہے۔
احسان علی عارف ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’فی الحال ہمارے پاس جو اعداد و شمار آئے ہیں، ان کے مطابق ٹی ایل پی کے 5 ہزار سے زائد قیدیوں کے لاہور ہائی کورٹ میں کیسز چل رہے ہیں، جن کو صرف 30 روز کیلئے جیل بھیجا گیا ہے۔ جبکہ سینکڑوں قیدی دہشت گردی ایکٹ کے تحت قید ہیں جن میں کیس نمبر ایک علامہ خادم حسین رضوی کا ہے۔‘‘ احسان علی عارف کا مزید کہنا تھا کہ ’’ان 30 یوم میں 15 دن کی تخفیف کیلئے ہوم سیکرٹری کو درخواست دی ہے، جس پر کوئی بھی نظر ثانی نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ ہوم سیکرٹری کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ ذاتی بنیاد پر 15 روز کی نظر بندی ختم کرسکتا ہے۔ تاہم اگر 15 روز میں وہ نظر بندی ختم نہیں کرتے تو اس کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے، جو ہم مدت پوری ہونے پر کریں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں قیدیوں سے ملنے نہیں دیا جاتا جبکہ گزشتہ روز لاہور کورٹ کی جانب سے ایک قیدی کے ورثا کو ملنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم تمام قیدیوں کیلئے عام اجازت جاری نہیں کی گئی ہے۔
کراچی کی جیلوں میں ایم پی او کے تحت قید ٹی ایل پی کارکنان کے کیسز کے حوالے سے امجد قریشی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اب تک ہمارے پاس ایم پی او کے قیدیوں کی تعداد 159 ہے، جن میں سے 104 قیدیوں کا تعلق کراچی سے ہے، جن کو 30 روز کیلئے قید کیا گیا ہے۔ جبکہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت قید ہونے والوں کی تعداد کا تعین اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ایم پی او کی سیکشن 3 کے تحت ہمارے موکلوں کے اہلخانہ کو ان سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ لگ بھگ 10 سے 12 مقدمات دہشت گردی ایکٹ کے تحت بھی درج ہیں جن میں بعض کارکنان اور رہنماؤں پر سیون 8 اے لگائی گئی ہے۔ ان میں تحریک لبیک سندھ کے امیر علامہ غلام غوث بغدادی بھی شامل ہیں۔ ان تمام قیدیوں میں سے چند ایک کو فیملی سے ملنے دیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام قیدیوں کے اہلخانہ کو ان سے ملنے دیا جائے تاکہ ان کو کپڑے، کھانا اور ادویات وغیرہ فراہم کرسکیں۔‘‘
ناصر منہاس ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’حکومت نے غیر قانونی طور پر ہمارے ہزاروں کارکنان کو اٹھایا اور جیلوں میں بند کیا ہوا ہے۔ ہمارے کارکنان کو 3 ایم پی او کے تحت بند کیا گیا ہے۔ یہ ان لوگوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جن کو حکومت نے ملک کیلئے خطرہ قرار دیا ہو۔ حیرت انگیز طور پر ان ہزاروں قیدیوں میں 12سال کا بچہ بھی قید ہے اور اس کے علاوہ 82 سال کی عمر کے لوگ بھی ہیں۔ اب کوئی بتائے یہ 12 سال کا بچہ اور 82 سال کا بوڑھا بھلا کیا کسی کیلئے خطرہ ہوں گے‘‘۔ ناصر منہاس نے مزید کہا کہ ’’مارشل لا کے دو میں بھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ اندازہ کریں کہ اب تک خادم حسین رضوی صاحب سے بھی کسی وکیل کو ملاقات نہیں کرنے دی گئی ہے۔ پنجاب میں حکومت نے سینکڑوں ایف آئی آرز کاٹی ہیں، تاہم کارروائی 3 ایم پی او کے تحت کی گئی ہے۔ خود مجھے بھی 40 روز کیلئے نظر بند کیا گیا تھا اور مذاکرات کے 4 روز بعد رہا کیا گیا تھا۔ ہمیں آرٹیکل 9،10،12 ،14 اور 25 کے تحت بنیادی حقوق نہیں دیئے جا رہے۔ ہم آزادی کے ساتھ جلسہ کر سکتے ہیں اور نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے ہیں۔ ہمارے کارکنان کے گھروں پہ چھاپے مارے جارہے ہیں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کارکنان کو بھی اٹھایا جارہا ہے۔‘‘
ادھر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کراچی پولیس کی جانب سے مختلف مقامات سے احتجاجی مظاہرین کو اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان کی موٹر سائکلیں بھی اٹھا لی گئی تھیں جن کو تھانے سے واپس لانے کیلئے تحریک لبیک کی جانب سے باقاعدہ ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ جبکہ کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتار ہونے والے کارکنان کی موٹرسائکلیں ریکور کرائی جارہی ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More