ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
تحریک انصاف حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی کو دو الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’’رولا پاوتے ڈنگ ٹپاو‘‘ حکومت ہے، یعنی یہ شور کرکے اپنے دن گزارنے کی پالیسی پر چل رہی ہے۔ اس کی ہر چال نرالی ہے، صدر سے لے کر وزیر اعظم تک اور وزرا سے لے کر مشیروں تک سب کو بس ایک ہی شوق ہے اور وہ ہے میڈیا کے سامنے بیٹھے رہنے کا، جس طرح زکوٹا جن کا مقولہ تھا کہ مجھے کام بتاؤ، میں کس کو کھائوں، اسی طرح موجودہ حکومت کے اوپر سے لے کر نیچے تک کے عہدیدار۔
لگتا ہے صبح اٹھنے کے بعد یہی پوچھتے ہیں، مجھے چینل یا اینکر بتاؤ! میں آج کس کو بلاؤں یا کس کے پاس جاؤں، آبیل مجھے مار کی کہاوت کو انہوں نے آمیڈیا مجھے مار میں بدل دیا ہے۔ زبان پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہر انٹرویو، ہر میڈیا ٹاک پر یہ اپنی بھد اڑواتے ہیں، لیکن مجال ہے جو ان کے کانوں پر جوں تک بھی رینگتی ہو۔ یہ دوسرے روز پھر اپنے آپ کو میڈیا کے بیل کے سامنے پیش کرنے کیلئے بے تابی سے لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حکومتی عہدیدار اتنا بول رہے ہیں اور فضول بول رہے ہیں کہ اب تو لوگوں نے کان کے پردے بچانے کے لئے انہیں دیکھتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونسنی شروع کر دی ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت میں صرف وزارت فضولیات میں کام ہوتا نظر آرہا ہے، پوری حکومت اسی وزارت کو چلانے میں مصروف نظر آتی ہے۔ رولا حکومت رولا پانے کی کتنی شوقین ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ صدارت جیسے آئینی عہدے پر بیٹھے عارف علوی بھی دو ماہ میں چار، چھ انٹرویو بھگتا چکے ہیں۔ اب انہوں نے ٹیسٹ بدلنے کیلئے پریس کانفرنسوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے، حالانکہ صدر مملکت کے آئینی عہدے کا ایک وقار رہا ہے، جب صدر بااختیار ہوتا تھا، اس وقت بھی اس عہدے پر بیٹھی شخصیت شاذ و ناذر ہی کوئی میڈیا ٹاک کرتی تھی۔ صدر کو قوم ٹی وی پر اسی وقت دیکھتی تھی، جب وہ اسمبلی توڑنے کا اعلان کرتا تھا، لیکن عارف علوی بے اختیار ہو کر بھی روز ٹی وی پر آنے کے خواہشمند ہیں۔ پریس کانفرنسیں کرتے پھر رہے ہیں۔ خیر جب وزیر اعظم جو پارٹی قائد ہیں سمیت سب دریائے رولا میں نہا رہے ہیں تو عارف علوی کیوں پیچھے رہیں۔ صدر عارف علوی کی پشاور کی پریس کانفرنس تو بڑا لطیفہ لگی۔ وہ فرما رہے تھے کہ میں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ میڈیا میں زیادہ رہنے یا اپوزیشن سے الجھنے کے بجائے کام پر توجہ دے،کیا کہنے ہیں۔ ان کے حکومت کو میڈیا اور تنازعات سے دور رہنے کا مشورہ دینے والے صدر عارف علوی نے خود یہ بات بتانے کیلئے بھی پریس کانفرنس کر ڈالی اور اس میں لاپتہ افراد سمیت کئی حساس معاملات کو چھیڑ ڈالا۔ کا ش حکومت کو مشورہ دینے سے قبل وہ یہ اصول پہلے اپنے اوپر لاگو کر لیتے، ان کا تو عہدہ بھی غیر سیاسی اور زیادہ توقیر کا تقاضا کرتا ہے۔
رولا حکومت کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آرہی، باقی حکومتیں جا بھی رہی ہوں تو اس کے سربراہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کرسی بڑی مضبوط ہے اور یہاں وزیر اعظم ہر روز خود ہی اپنی حکومت گرنے کی پیش گوئی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حکمرانوں کو الیکشن سامنے نظر آرہے ہوں تب بھی وہ پانچ برس کا مینڈیٹ مکمل کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن یہاں کوئی خطرہ نہ ہونے کے باوجود خود ہی مڈٹرم الیکشن کی پھلچڑیاں چھوڑی جا رہی ہیں۔ بندہ وزیر اعظم نہ بھی رہے تو یہاں خود کو وزیر اعظم سمجھتا رہتا ہے۔ یہاں عمران خان وزیر اعظم ہوکر خود کو اس عہدے پر نہیں سمجھتے اور ان کی اہلیہ کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہیں۔ عمران خان نے برسوں کرکٹ کھیلی ہے، اس دور میں تو ٹیسٹ میچ بھی چھ روز کا ہوتا تھا، ان کی زندگی کا بڑا حصہ ٹی وی اسکرینوں کے سامنے گزرا ہے، لیکن سمجھ نہیں آتی کہ پھر بھی ان کا شوق پورا کیوں نہیں ہوا۔ جب سے وزیراعظم بنے ہیں، چار پانچ خطاب کر چکے ہیں، انٹرویو کی تعداد الگ ہے۔ اینکرز سے غیر رسمی ملاقاتوں کا تو کوئی شمار نہیں، مگر لگتا ہے انہیں غیر رسمی بات چیت میں مزا نہیں آرہا تھا، کیوں کہ لوگ انہیں ٹی وی پر دیکھ ہی نہیں پا رہے تھے، اس لئے انہوں نے چھ سات اینکرز کے ساتھ رسمی بات چیت کی محفل سجالی۔ ملک کو ان کی یہ محفل عدم استحکام کے حوالے سے کتنی مہنگی پڑی، اس کی کسی کو کیا پروا؟ وزیراعظم تو خوش ہوں گے کہ وہ اتنے سارے چینلوں پر ایک ساتھ آئے اور پھر دو دن ان کی اس گفتگو پر بحث بھی ہوئی، یعنی بار بار ٹی وی پر ان کا ذکر ہوتا رہا۔ ان کا شوق تو امید ہے کچھ نہ کچھ پورا ہوگیا ہوگا، اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو محروم رہ جانے والے اینکرز کو بلانے کا آپشن تو موجود ہی ہے، لیکن اس رولے میں سب سے برا حال ملکی معیشت کا ہورہا ہے، جس سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ایک کاروباری شخصیت کے مطابق سابق حکومت میں صلاحیت تھی، لیکن ان کی ملکی کاروبار خصوصاً صنعتیں چلانے کی نیت نہیں تھی اور موجودہ حکومت کی نیت نظر آتی ہے لیکن ان میں صلاحیت نہیں ہے، جو صلاحیتیں ہیں، وہ بھی رولا ڈالنے پر ہی ضائع کی جا رہی ہیں۔ جہاں ایک دن میں روپیہ دس روپے گرا دیا جائے اور وزیر اعظم کہے کہ اسے علم ہی نہیں تھا، ٹی وی پر دیکھ کر پتہ چلا، وہاں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اگر علم نہیں تھا، تو یہ وہ جگہ تھی، جہاں وزیراعظم کو رولا ڈالنا چاہئے تھا، جو جو ذمہ دار تھا، اسے گھر بھیجنا چاہئے تھا، لیکن گھر بھیجنے کا کام بھی انہوں نے اینکروں کے سامنے رولا ڈال کر ہی پورا کر دیا۔ وزیر خزانہ اسد عمر شریف ہوں گے، ایماندار بھی ہوں گے، لیکن ملکی خزانہ سنبھالنے کے لئے یہ دو خاصیتیں کافی نہیں ہوتیں، آپ کا نظام پر کنٹرول بھی ہونا چاہئے۔ لیکن انہیں تو اپنے قائد کی طرح زبان پر بھی کنٹرول نہیں ہے، نظام تو بہت دور کی بات ہے، انہیں بھی اپنے قائدین کی طرح بس میڈیا پر بیٹھ کر رولا ڈالنے کا شوق ہے۔ حالانکہ وہ وزارت خزانہ جیسی حساس جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ معیشت کو اربوں روپے میں پڑ سکتا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ میڈیا کے سامنے آئے بغیر تو پی ٹی آئی رہنماؤں کی لگتا ہے روٹی ہضم نہیں ہوتی، اس لئے وزیر خزانہ بھی ہر روز آپ کو کسی نہ کسی چینل پر بیٹھے معیشت کا کریا کرم کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے محکموں پر ان کے کنٹرول کا یہ عالم ہے کہ ستمبر میں انہوں نے برآمد کنندگان کے لئے گیس اور بجلی کا پیکیج منظور کیا تھا، دو ماہ گزرگئے، ان کے ماتحت افسران اس سمری کو گھما رہے ہیں، کبھی ایک اعتراض اور کبھی دوسری پخ اور وہ اس سمری پر عمل نہیں کرا سکے۔ اب جاکر وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے مداخلت کی ہے تو معاملہ حل ہونے کی امید ہوئی ہے، لیکن اس دوران اس پیکیج میں حکومت کیلئے تو میگنیاں پڑ چکی ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت گزشتہ دس برسوں میں پی پی پی اور ن لیگ کے دور حکومت میں غلط پالیسیوں سے تباہ ہوگئی، لیکن ٹیکسٹائل برآمد کنندگان نے اتنی پریس کانفرنسز ان حکومتوں کے خلاف نہیں کی تھیں، جتنی وہ دو ماہ میں موجودہ حکومت کے خلاف کر چکے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے سابقہ حکومتوں نے انہیں کوئی امید ہی نہیں دلائی تھی، اس لئے وہ ملیں بند کرکے یا جو تھوڑی بہت چل سکتی تھیں، اتنی چلاتے ہوئے گھر بیٹھ گئے تھے، لیکن موجودہ حکومت انہیں سبسڈی پیکیج کی امید دلا کر جب دو ماہ تک عمل نہیں کر سکی، تو انہوں نے ردعمل ظاہر کیا۔ اگر وزیر خزانہ میڈیا پر بیٹھ کر رولا ڈالنے کے بجائے ان افسران پر رولا ڈالتے، جو اس سمری میں رکاوٹ بن کر معیشت کا نقصان کررہے تھے، تو حکومت اور ملک دونوں کا فائدہ ہوتا، یہ تو اتنا بڑا کام بھی نہیں تھا، اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری کے بعد کیسے بیوروکریسی نے اس پر دو ماہ تک عمل روکے رکھا۔ سیکریٹری خزانہ، تیل و گیس اور سوئی ناردن کے سربراہ کو بلا کر ایک اجلاس میں فیصلہ کیا جاسکتا تھا اور اسی وقت نوٹیفائی بھی کردیا جاتا، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی توجہ وزارت کے کام پر ہو، نہ کہ اس پر کہ شام کو کس چینل پر بیٹھ کو خود نمائی کرنی ہے۔ اب ڈالر والے معاملے میں زیر عتاب آنے کے بعد وزیر خزانہ فرما رہے ہیں: کچھ عناصر ہیجان اور عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش کر رہے ہیں، جو ملکی معیشت کیلئے اچھا نہیں ہے۔ حالانکہ انہیں کوئی بتائے حضور یہ کام آپ خود بھی روز میڈیا پر ڈال کر کر رہے ہیں۔ پہلے اپنے اوپر کنٹرول کریں، اپنے محکموں کے اوپر بھی، پھر دیگر عناصر خود ہی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
٭٭٭٭٭
Next Post