امریکا کو ایک بار پھر یہ بیان جاری کرنا پڑا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ امریکی ایوان صدر نے ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو بھیجے جانے والے خط کی تصدیق کر دی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے خط کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس میں افغان امن عمل میں پاکستان کی مکمل حمایت اور ہمارے نمائندہ خصوصی سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ خط میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کی مدد دونوں ممالک کی شراکت میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دریں اثنا امریکی سینیٹ میں آرمڈ فورسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے امریکی جنرل میکنزی نے اعتراف کیا کہ افغان جنگ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ افغان (سرکاری) فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ناقابل برداشت ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس فوج کو صلاحیت حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی یا حکمت عملی میں تبدیلی نقصان دہ ہوگی، ایسی صورت میں افغان فوج اپنا دفاع نہیں کرسکے گی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے وزیر اعظم عمران خان کو خط اور امریکی جنرل میکنزی کے بیان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکا اب عالمی سپر پاور ہونے کے دعوے سے دستبردار ہوگیا ہے۔ افغانستان میں سترہ سال کی بدترین شکست کے بعد اسے یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ملکوں اور قوموں کو اسلحے کے زور پر فتح نہیں کیا جاسکتا۔ آبادی اور معاشی و دفاعی استحکام کے لحاظ سے امریکا اور پاکستان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ امریکی و اتحادی افواج نے افغانستان پر وحشیانہ حملے اس امید پر کئے تھے کہ دفاعی لحاظ سے نہایت کمزور یہ چھوٹا سا بے سہارا ملک فوراً ہی اس کا غلام بن جائے گا۔ اسے پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے راہداری سمیت تمام سہولتیں بھی فراہم کی تھیں، لیکن ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ امریکی اور نیٹو فوجی بے گناہ افغان باشندوں کو لاکھوں کی تعداد میں شہید و زخمی اور بے گھر کرنے اور ملک کو بموں سے تباہ و برباد کرنے میں تو کامیاب ہوگئے، لیکن وہ افغان عوام کے دلوں کو جیت سکے، نہ ملک کے کسی حصے پر پوری طرح قابض ہو سکے۔ سترہ سال کی ذلت و خواری کے بعد امریکا بہادر اب یہ کہنے پر مجبور ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ طاقت کے نشے میں مخمور امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو خط لکھ کر افغانستان کے امن عمل میں مکمل حمایت اور اس کے نمائندہ خصوصی سے تعاون کی ’’درخواست‘‘ کی جائے گی۔ اس خط کے تناظر میں پاکستان کو اپنی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے امریکا کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے۔ امریکا کو افغانستان میں امن مطلوب ہوتا تو وہ اس پر امن ملک پر حملہ کرکے کیوں ذلیل و خوار ہوا۔ افغان عوام اور املاک کی تباہی کے علاوہ امریکا نے خود بھی بڑا جانی و مالی نقصان اٹھایا اور اپنے حلیف ممالک کو بھی بربادی اور بے انتہا ذلت و رسوائی سے دوچار کیا۔ امریکی جنرل میکنزی کا یہ بیان خود ان کی حکومت اور شہریوں کے لئے شرمناک ہے کہ افغان جنگ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ سترہ سال کے عرصے میں امریکا اپنی پٹھو افغان حکومت کے فوجیوں کو اس قابل بھی نہیں کر سکا کہ وہ افغان عوام کا تو کیا، خود اپنا ہی دفاع کرلیں۔ جنرل میکنزی کا یہ کہنا اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہے کہ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود سرکاری افغان فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ افغان فوج کو اپنے دفاع کی صلاحیت حاصل کرنے میں مزید کتنا وقت لگے گا۔ جنرل میکنزی کے خیال میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی یا حکمت عملی نقصان دہ ہوگی۔ ایسی صورت میں افغان فوج اپنا دفاع نہیں کر سکے گی۔ اپنی ناکامیوں کے واضح اعتراف کے ساتھ امریکا کی حکومت اور فوج کو یہ معروضی حقیقت بھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ غیور افغان باشندوں پر کوئی غیر ملکی فوج، کٹھ پتلی حکومت یا اس کے فوجی اپنا اقتدار قائم کرنا تو درکنار، اپنے تحفظ و سلامتی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتے۔ فی الوقت امریکا کو پاکستان کی حمایت اور مدد اس لئے درکار ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کی بحفاظت وہاں سے نکالنا چاہتا ہے۔ امریکا کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے فوجیوں کی بے دخلی کے بعد سرکاری افغان فوجی اپنا دفاع کر سکیں گے یا نہیں۔ پاکستان کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خط کا جواب دیتے ہوئے سخت مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آئندہ امریکا کے کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ نیز یہ کہ افغان جنگ میں پاکستان نے جتنا جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے امریکا اسے پورا کرے، تب ہی وہ امریکی فوجیوں کے بحفاظت انخلا میں تعاون کرے گا۔
اخلاص اور نیک نیتی کا فقدان
پاکستان کے اولین مسئلے غربت کو ختم کرنے کے لئے فوری فیصلے اور اقدامات کرنے کے بجائے سیاسی و فوجی اور عدالتی قیادت نت نئے مسائل بیانات اور اجلاس میں مصروف ہے۔ ڈیم بنانا بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور آبادی پر قابو پانا بھی، لیکن ان سب سے پہلے بائیس کروڑ عوام کو غربت و افلاس سے نکال کر زندہ رہنے کا حق دینا ہے۔ غریبوں کے مسائل حل کرنے میں حکومت کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف روزمرہ کی بنیاد پر ڈالر بجلی اور عام استعمال کی اشیا مہنگی ہو رہی ہیں تو دوسری جانب وفاقی حکومت نے غربت کے خاتمے کے لئے ابھی صرف ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا سربراہ ڈاکٹر اشفاق حسن کو بنائے جانے کا امکان ہے۔ یہ ادارہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر رابطے کرے گا اور پالیسی بنائے گا۔ مختلف وزارتوں کے حکام اس ادارے کے ارکان ہوں گے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح گا، گی، گے، کی گردان کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت اگر غربت کے خاتمے میں مخلص ہوتی تو اب تک وہ قومی دولت کے لٹیروں کی ساری جائیداد و املاک اور مال و دولت سرکاری تحویل میں لے کر قرضوں سے نجات حاصل کرلیتی۔ اس طرح غربت ختم کرنے کے علیحدہ علیحدہ اور طویل المدت اقدامات کے بجائے ہفتوں میں مثبت نتائج سامنے آسکتے تھے۔ غریب شہریوں کو حکومتی اعلانات سطحی نظر آنے کے علاوہ ان میں اخلاص اور نیک نیتی کا فقدان بھی صاف دکھائی دے رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post