یعقوب خراسانیؒ کہتے ہیں کہ: میں آگے بڑھا اور سب نے مل کر کھانا کھایا اور پانی پیا۔ پھر نماز کے واسطے میں نے وضو کیا اور نماز قضاء کی اور وہ پانی زمین میں چلا گیا، گویا تھا ہی نہیں۔ پھر وہ اپنی نماز میں مشغول ہوئے، حتیٰ کہ صبح ہوئی اور دونوں سفر کے واسطے اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں بھی ان کے ساتھ رات تک چلا۔ جب شام ہوئی تو دوسرا راہب آگے بڑھا اور نماز پڑھ کے چپکے سے کچھ دعا کی اور پھر اپنے ہاتھ سے زمین کھودی تو پانی کا چشمہ ویسا ہی جیسا کہ کل اس کے ساتھی کے کھودنے سے نکلا تھا، نکل آیا اور اس کے پہلو میں کھانا بھی رکھا ہوا تھا اور مجھ سے کہا آگے بڑھ کر کھاؤ پیو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ چنانچہ ہم نے کھا پی کے نماز کے واسطے وضو کیا اور پانی اسی زمین میں چلا گیا، گویا کہ تھا ہی نہیں۔
جب تیسری شب آئی تو انہوں نے کہا: اے محمدی! (مسلمان) یہ رات تیری ہے اور آج باری تیری ہے۔ یعنی اب پانی اور کھانے کا انتظام تم نے کرنا ہوگا، جیسا کہ گزشتہ دو راتیں انہوں نے پر اسرار طریقے سے ان چیزوں کا انتظام کیا تھا۔
یعقوب خراسانیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے ان کے اس قول سے شرم آئی اور دل میں ایک سخت حالت طاری ہوگئی۔ میں نے کہا: حق تعالیٰ نے چاہا تو اچھا ہی ہوگا۔ پھر ان سے ہٹ کر ایک طرف گیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور بارگاہ الٰہی میں عرض کرنے لگا: اے میرے مولا! اے میرے مالک! تو جانتا ہے کہ میرے گناہ بہت ہیں، جن کی وجہ سے تیرے نزدیک میرا رتبہ اور جاہ نہیں ہے اور نہ میرا منہ اس قابل ہے، لیکن میں اس وجیہہ کریم بڑے مرتبہ والے محمد علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کے وسیلے سے مانگتا ہوں کہ مجھے ان لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ کیا جائے۔
جب میں دعا سے فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک چشمہ جاری ہے اور میرے پہلو میں کھانا رکھا ہوا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آگے بڑھ کر خدا کے فضل سے کھاؤ۔ چنانچہ وہ آگے بڑھے اور ہم تینوں نے کھایا اور پیا اور ہر حالت میں خدا کا شکر ادا کیا اور اسی حالت میں رہے کہ ایک رات ایک راہب کی، دوسری رات دوسرے راہب کی اور تیسری رات میری باری ہوتی۔
اسی طرح میری دوسری باری آئی۔ پھر میں نے پہلے ہی کی طرح دعا کی اور پانی کا چشمہ نکل آیا اور کھانا بھی حاضر ہوگیا۔ جب تیسری باری آئی اور میں نے اسی طرح دعا کی تو ود آدمیوں کا کھانا اور انہیں کا پانی آیا۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔
انہوں نے کہا: اے محمدی! یہ حادثہ تم پر کیوں پیدا ہوا؟ کیا تم اپنے کھانے پینے میں نقصان نہیں دیکھتے ہو۔ میں نے کہا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ امر خدا ہی کے اختیار میں ہے اور ہم اس کے حکم اور ارادے کے نیچے ہیں اور ہمارا دین یہ چاہتا ہے کہ کبھی تکلیف ہو اور کبھی راحت۔ کبھی سختی ہو اور کبھی آرام اور کبھی عطا ہو تو کبھی منع، تاکہ ہمارے صبر کی بھی آزمائش ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ اے محمدی! تم نے سچ کہا۔ وہ بڑا رب ہے اور اسلام اچھا دین ہے۔ اپنا ہاتھ بڑھاؤ، تاکہ ہم کلمہ شہادت پڑھیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے میرے ہاتھ پر کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا اور کہا کہ دین اسلام حق اور اس کے سوا سب باطل ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ اے بھائیو! کیا تم کسی شہر میں چلو گے، تاکہ جمعہ اور جماعت میں شامل ہو سکیں۔ کیونکہ جمعہ مساکین کا حج ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ اچھی رائے معلوم ہوتی ہے اور اچھا فعل ہے۔ جب ہم اس ارادے سے چلے تو سامنے ایک عمارت نظر آئی۔ اندھیری رات تھی، غور سے دیکھا تو ہم بیت المقدس میں تھے۔ ہم اس میں داخل ہوئے اور ایک مدت تک اس میں مقیم رہے۔ خدا کی عبادت کرتے تھے اور ہمارا رزق ایسی جگہ سے بہم پہنچتا تھا، جس کا گمان بھی نہ تھا، حتیٰ کہ دونوں ساتھی وہیں رحمت حق کو پہنچے اور انتقال کر گئے۔ (بحوالہ حکایات الصالحین)
حاصل… بیشک توکل ایک عظیم دولت ہے اور ایک مؤمن کی شان اور پہچان ہے، جیساکہ اس واقعہ سے بھی ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر صرف اور صرف خدا ہی پر توکل کرنا چاہئے۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہمیں بھی متوکلین کی صف میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
٭٭٭٭٭
Next Post