کسی بھی مثبت فیصلے کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچنے دینے کی روایت ہمارے ہاں بڑی پختہ ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی حکومت مضبوط ہوسکی نہ ہی کوئی ادارہ۔ مفادات پر چوٹ پڑے تو اہل سیاست کو کبھی جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے اور کبھی اقتدار و اختیارات۔ ایسے میں انسانی المیے جنم لینے کے خود ساختہ بیانات دے کر درست کام کرنے والوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے اور یہی کھیل اب انسداد تجاوزات مہم کو ناکام بنانے کے لئے بھی کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انسداد تجاوزات مہم میں سندھ حکومت، متحدہ اور جماعت اسلامی کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے دیکھ کر گورنر سندھ بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے عمران اسمٰعیل نے بھی سپریم کورٹ میں تجاوزات آپریشن پر نظرثانی کی درخواست جمع کرا دی ہے، جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ حکومت متاثرین کی بحالی کیلئے متبادل جگہوں کا بندوبست کرنا چاہتی ہے، جس کیلئے مہلت دی جائے۔ اس سے قبل سندھ حکومت بھی ایسی ہی ایک فریاد لے کر سپریم کورٹ کا در کھٹکھٹا چکی ہے۔ متحدہ اور جماعت اسلامی والے اپنے سابقہ طور طریقوں سے اثرانداز ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ متحدہ کے میئر آپریشن جاری رکھنے کی صورت میں استعفے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میئر کے اختیارات کی بحالی کا مطالبہ سامنے لے آئے ہیں، فاروق ستار مظاہروں کے ذریعے اپنی بچی کھچی لیڈر شپ چمکانے نکل پڑے ہیں اور جماعت اسلامی حسب روایت دھرنے دے کر کراچی کے شہریوں کو اپنی موجودگی اور ہمدردی کا احساس دلا رہی ہے۔
حافظ جی کو تعجب اس بات پر ہے کہ گورنر عمران اسمٰعیل نے جس روز تجاوزات مسماری مہم روکنے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی، اس سے ایک روز قبل ہی وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس میں تجاوزات کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ وزیراعظم نے متعلقہ منسٹری اور وزارت قانون سے یہ البتہ کہا تھا کہ تجاوزات کی واگزاری کیلئے ایسا متبادل طریقہ وضع کیا جائے کہ اس سے غریبوں کا نقصان نہ ہو۔ اس حوالے سے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی۔ اب خدا جانے یہ اس کمیٹی کی ہدایت تھی یا گورنر سندھ کی اپنی جلد بازی کہ انہوں نے بھی دوڑم دوڑ اپنی درخواست سپریم کورٹ پہنچنے والی ان درخواستوں کے ساتھ نتھی کردی، جو انسانی المیوں کا خوف پھیلا کر سپریم کورٹ کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں، جبکہ کابینہ اجلاس کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے واضح طور پر کہا تھا کہ تجاوزات مہم کے خلاف منفی تاثر پھیلایا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں تجاوازت مسماری آپریشن سپریم کورٹ کے حکم پر ہو رہا ہے، وفاقی حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے، البتہ بحیثیت حکومتی ذمہ دار ہم چھوٹے کاروباری طبقے کی مدد کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے یاد دلایا کہ گلیات میں بھی بڑے لوگوں سے سرکاری زمینیں واگزار کرائی گئی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کے گھر یا ان کے کاروبار اجڑنے نہیں دیں گے، غریب اور ریٹائرڈ افراد کو ہر ممکن تحفظ دیا جائے گا۔ حافظ جی تجاوزات مسماری مہم کی روشنی میں وزیر اعظم اور ان کے مشیر کے بیانات کو تو سپریم کورٹ کے احکامات کی تائید سمجھتے ہیں، مگر جو درخواست گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے، وہ صریحاً اعلیٰ حکومتی زعماء کے بیانات کے منافی اور پیپلز پارٹی و متحدہ کے عمل کی تائید ہے۔ جناب عالی پیپلز پارٹی اور متحدہ والے یہی تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح سپریم کورٹ کو گمراہ کرکے جاری آپریشن رکوادیا جائے تاکہ ان کے وہ کرتوت منظر عام پر نہ آسکیں، جنہیں عرف عام میں کالے کرتوت کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔ پولیس اور سرکاری اداروں کے بھتوں کا سلسلہ جاری رہے، جن میں اس آپریشن کے سبب شدید تعطل آچکا ہے۔ اگر آپریشن جاری رہا تو بڑے بڑے شرفاء کے چہروں سے نقاب ہی نہیں اتریں گے، بلکہ ان کی وہ املاک بھی بحق سرکار ضبط ہونے کا قوی امکان ہے، جو ان کی شان و شوکت کی نمایاں علامات ہیں۔ انسداد تجاوازت مہم میں سندھ حکومت، متحدہ اورکسی حد تک گورنر سندھ کی مداخلت تو حافظ جی کی سمجھ میں آتی ہے، مگر یہ جماعت اسلامی کے کون سے مفادات ہیں جو اس نے دھرنے اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کر ڈالا؟ بھائی میرے سیاسی اچھل کود کیلئے اور بھی میدان ہیں، ضروری تو نہیں کہ آپ ہر بار ہی بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانے کا کردار ادا کریں! شہر کی سڑکوں سے تجاوزات صاف ہونے دیں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ فیول کتنا مہنگا ہے، راستوں کی بندش دور ہونے سے وقت اور فیول دونوں کی بچت ہوگی۔ کیا آپ کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ تجاوزات کے سبب ٹریفک کے رش میں پھنسی گاڑیوں سے کس قدر خطرناک آلودگی ہوتی ہے، جو پھیپھڑوں کے عوارض کا سبب بنتی ہے، کیا آپ ماحول دوست فضاء نہیں چاہتے؟ کیا کبھی آپ نے سرشام لیاقت آباد سپر مارکیٹ پر قائم پتھاریداروں کے سبب ٹریفک کا اژدھام نہیں دیکھا؟ دن بھر کام سے تھکے ہارے ملازمت پیشہ افراد کی گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ اس مارکیٹ سے لیاقت آباد ڈاکخانہ تک قدر اندر قطار ہوتی ہیں۔ کیا عوام کا حق نہیں کہ وہ بروقت اپنے گھروں کو پہنچ کر اپنے دیگر امور نمٹائیں، آرام کریں اور پھر ایسے ٹریفک اژدھام میں پھنسی مریضوں کی ایمبولینسز کے ہوٹر بھی آپ کی سوئی ہوئی عقل کو جگانے کیلئے کیا ناکافی ہے؟ یہ تو ایک مقام کا تذکرہ ہے، پورے شہر میں صورتحال ایسی ہی ہے، اب آپ ہی سوچئے۔ عوامی حلقوں میں سیاسی دکان چمکانے کے لئے حقائق سے نظر انداز کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اپنی حدود سے تجاوز اگر مجھ غریب نے بھی کیا ہے غلط کیا ہے۔ کیا غلط کام محض اس لئے جائز قرار دے دیا جائے کہ وہ غریب نے کیا ہے؟ جناب عالی! روش بدلئے، من حیث القوم ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک سچ کو سچ سمجھ کر قبول کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں کر لیتے، غلط کام کو کیا محض اس لئے صحیح مان لیا جائے کہ اس کام کو پانچ میں چار افراد غلط کہہ رہے ہوں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ تجاوزات قائم کرنے والوں کو راضی کریں کہ وہ قبضوں سے ازخو دست بردار ہو کر اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنائیں، ایسا بیشتر شہریوں نے کیا بھی ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ان کا عمل غلط تھا، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کا تو کام لوگوں کو راہ راست پر لانا ہے نہ کہ قبضہ مافیا کی آشیرباد حاصل کرنا۔
گستاخی معاف! غریبوں سے ہمدردی کرنے کے زمرے میں کرنے کا کام یہ ہے کہ انہیں تجاوزات کی بے ہنگمی کے مضرات سے آگہی دی جائے، جہاں جہاں ممکن ہو ان کے لئے متبادل جگہوں اور باعزت روزگار کا بندوبست کرکے دیا جائے۔ یہ کام دھرنوں اور جلسے جلوسوں کے بنا بھی کئے جا سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کچھ رفاحی و فلاحی ادارے کر رہے ہیں، جن میں عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل اور سیلانی کا نام بالخصوص لیا جا سکتا ہے، جنہوں نے تجاوزات کے ضمن میں گرائی جانے والی دکانوں کے ملازمین کے لئے فوری روزگار پیکیجز اناؤنس کئے۔ سندھ حکومت، متحدہ اور جماعت اسلامی والے سب ہی بتائیں کہ انہوں نے اب تک متاثرین کی بحالی کے لئے ایسا کیا کیا؟ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭