امریکی جوائنٹ آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں جنگ کی مکمل کامیابی کے بغیر امریکی فوجیوں کا انخلا ایک اور نائن الیون کا موجب ہوگا۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر امریکی فوجی اپنے مشن کی تکمیل کے بغیر افغانستان سے واپس جاتے ہیں تو دہشت گردوں کو ایک بار پھر منظم اور متحرک ہونے کا موقع مل جائے گا۔ افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے القاعدہ اور داعش پر دبائو کم کرنے کو ناقابل نقصان سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ تنظیمیں متحد ہو کر نئی قوت کے ساتھ سامنے آئیں گی اور امریکیوں پر بھرپور حملے کریں گی۔ ادھر امریکی سینٹرل کمان (سینٹ کام) کے آئندہ سربراہ جنرل کینتھ میک کینزی کا کہنا ہے کہ طالبان کو مستحکم افغانستان کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پورا اثرورسوخ استعمال نہیں کررہا۔ جنرل میک کینزی نے افغان امن عمل میں پاکستان کو ترجیحی شراکت دار بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بھارتی اثرورسوخ پر پاکستان کے تحفظات دور کریں گے۔ انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ افغانستان میں استحکام پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ وہاں اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے اہم ہے۔ امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں پاکستان کو کردار ادا کرنے کی بار بار پیشکشوں پر بھارت سخت پریشان ہے۔ وہ کھل کر امریکا کی مخالفت کر سکتا ہے نہ پاکستان سے دشمنی کا اظہار کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔ چنانچہ چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی کو کام میں لاتے ہوئے اس نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشیں تیز کر دی ہیں۔ وہ پاکستان کو افغانستان میں دیئے جانے والے ممکنہ کردار پر نہ صرف ناراض ہے، بلکہ اس نے امریکی و بھارتی کٹھ پتلی سابق افغان صدر حامد کرزئی اور پاکستان مخالف شمالی اتحاد کے درمیان ناراضی ختم کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بدھ کی رات افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حامد کرزئی کی صدارت میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں شمالی اتحاد کے بعض رہنمائوں کی شرکت کے علاوہ بھارتی سفارت خانے کے افراد بھی موجود تھے۔ حامد کرزئی نے خود پر پاکستان کے احسانات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ذریعے قائم کیا جانے والا کوئی امن معاہدہ ہمیں منظور نہیں ہوگا اور ہم اس کے خلاف جدوجہد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہی افغانستان کے مسائل کا ذمے دار ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں اس کا کردار منظور نہیں۔ امریکا، بھارت اور افغانستان کے بارے میں ان خبروں اور اعلانات و بیانات کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کا یہ مؤقف نہایت حیرت انگیز ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ امریکا 1989ء کی طرح پاکستان کو تنہا چھوڑ کر افغانستان سے جلد بازی میں نکلے۔ اسے افغانستان میں پہلے حالات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد تعمیر نو کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہیں موجود ہونے کی تردید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تاہم ان کی یہاں موجودگی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ دو سے تین ہزار طالبان پناہ گزینوں کی آڑ میں افغان مہاجرین کے کیمپوں میں رہتے ہوں۔
افغانستان کے بارے میں اس اجمالی جائزے سے چند اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ اول امریکی حکمرانوں اور فوجی جنرلوں کے دلوں میں اب تک ’’نائن الیون‘‘ کا خوف موجود ہے۔ نائن الیون میں کون ملوث تھا، اس کا آج تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا ہے، لیکن اس کی آڑ میں امریکی و اتحادی فوجی سترہ سال سے افغانستان میں موجود ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر وہ چلے گئے تو طالبان، القاعدہ یا داعش کے جنگجو متحد و متحرک ہو جائیں گے، جس سے افغانستان کو نہیں، امریکا کو دوبارہ خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ دوم، جنرل کینتھ کا خیال ہے کہ طالبان کو مستحکم کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ کون اور کیوں کر رہا ہے؟ سوم، انہوں نے پاکستان پر یہ الزام دہرایا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بھرپور کردار ادا نہیں کررہا، اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ چہارم، پاکستان کے بغیر افغانستان میں استحکام ممکن نہیں ہے۔ یہ تسلیم کر لینے کے بعد افغانستان میں پاکستان کا کردار خود ہی واضح ہو جاتا ہے۔ پنجم، بھارت نے افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی ذلت آمیز شکست اور مستقبل میں اپنا کوئی کردار نہ دیکھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کر دی ہیں اور حامد کرزئی جیسے پٹے ہوئے امریکی مہرے کے ذریعے اور شمالی اتحاد کو آگے بڑھا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا آغاز اس کا ایک حصہ ہے۔ ششم، امریکا اگر خود سپرپاور ہونے کے زعم میں مبتلا ہو تو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن افغانستان میں سترہ سال کے جانی و مالی نقصان اور بدترین شکست کی ذلت کا داغ ماتھے پر سجا کر بھی وہ افغان طالبان اور القاعدہ وغیرہ جیسی تنظیموں سے خوف زدہ ہو کر کہے کہ ہزاروں میل دور امریکا کو ان سے خطرات لاحق ہیں تو دنیا اسے سپرپاور کیونکر تسلیم کر سکتی ہے؟ القاعدہ کا تو افغانستان میں اب کوئی وجود ہی نہیں اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو خود امریکا نے وجود بخشا ہے اور پھر افغان طالبان خود ہی اس سے نمٹ رہے ہیں۔ ہفتم، امریکا کی پسپائی اور پاکستان سے مدد کی درخواست پر ہماری حکومت کو اپنی برتر پوزیشن کا اندازہ ہونے کے بجائے وزیراعظم عمران خان ایک طرف اب بھی اسے سپرپاور تسلیم کرتے ہیں تو دوسری جانب فرماتے ہیں کہ سپرپاور کے ساتھ کون دوستی نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان اور امریکا کی دوستی کو کم و بیش پینسٹھ سال ہو رہے ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان دوستی کی اس تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی کر لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ اس سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچا ہے، اس زمانے میں بھی جب امریکا دنیا کی پہلی سپرپاور اور سوویت یونین دوسری سپرپاور تھی۔ سوویت یونین کے افغان مجاہدین کے ہاتھوں پرخچے اڑنے کے بعد امریکا واحد عالمی سپرپاور بن گیا تب بھی اس نے پاکستان کو کوئی فیض پہنچانے کے بجائے نقصان ہی سے دوچار کیا۔ اب تو وہ سپرپاور بھی نہیں۔ اس کی دفاعی صلاحیت کا اندازہ افغانستان میں بخوبی ہو گیا ہے، جبکہ اس وقت وہ پاکستان سے مدد کا طلبگار ہے۔ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی تک وہاں امن قائم ہو سکتا ہے نہ استحکام آسکتا ہے، لیکن وزیر اعظم عمران خان اس کے برعکس انہیں مزید افغانستان میں رکھنا چاہتے ہیں، کیوں؟ افغانستان میں امریکا کے ذریعے امن و استحکام کا خیال کسی طور بھی دانشمندانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سترہ سال میں اس نے افغانستان اور پاکستان کو تباہی و بربادی اور بدترین دہشت گردی کے سوا کیا دیا ہے، جو کوئی امریکا کو مزید یہاں قیام کا مشورہ دے اور یہ بھی کہے کہ پاکستان میں بھی دو تین ہزار طالبان موجود ہیں۔ ایسی عقل اور اس حکمرانی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭