قسط نمبر 16
ایک دفعہ یوں ہوا کہ نیشاپور میں امام بخاریؒ کے حاسدوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ قرآن مجید کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں، بلکہ مخلوق سمجھتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، حسد کرنے والوں کے ہاتھ شوشہ آگیا اور انہوں نے ہر جگہ اور ہر مجلس میں یہ بات مشہور کردی۔ حالانکہ معاملہ بالکل الٹ تھا۔ امام بخاریؒ قرآن مجید کو خدا کا کلام مبارک ہی سمجھتے تھے، جیسے کہ اہل سنت کا موقف ہے، لیکن حاسدوں نے یہ افوا اس قدر تیزی کر دی، مشہور امام ذہلیؒ بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے اور انہوں اپنے تمام شاگردوں میں اعلان کردیا کہ آج کے بعد کوئی بھی امام بخاریؒ سے میل جول نہ رکھے، لیکن امام مسلمؒ ان سے مسلسل ملتے رہے۔ شاگردوں نے امام ذہلیؒ سے شکایت کی۔
ایک روز امام ذہلیؒ سبق پڑھانے آئے، آتے ہی اپنے شاگردوں کو مخاطب کیا خبردار! تم میں سے کوئی بھی امام بخاریؒ سے استفادہ کرتا ہے تو اس مجلس سے اٹھ جائے۔ امام مسلمؒ جو مجلس میں بیٹھے تھے، لیکن جونہی انہوں سے یہ سنا، چپ چاپ مجلس سے اٹھے، اپنی چادر کندھے پر رکھی اور جتنی بھی حدیثیں امام ذہلیؒ سے لکھی تھیں، لوٹا کر واپس آگئے۔
امام مسلمؒ نے نیشاپور میں جب علم حدیث حاصل کر رہے تھے، اس دور کی روایت اور دستور تھا کہ علم حدیث کے لیے دوردراز کا سفر کیا جاتا تھا اور جہاں معلوم ہوتا تھا کہ کسی کے پاس رسول اکرمؐ کی حدیث ہے تو مشکلات سے بھرے سفر کرکے اس تک پہنچا جاتا۔ ایسے سفر کو محدثین کی نظر میں ’’رحلت‘‘ کہا جاتا تھا، وہ سفر جو حدیث حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔
امام مسلمؒ نے بھی حدیث کی سماعت کے لیے رحلت کرنا شروع کی اور نیشاپور سے نکل کر عراق، حجاز، مصر اور شام کے سفر کئے، وہاں حدیث کے بڑے استاتذہ سے استفادہ کیا، کئی شیوخ الحدیث سے سماعت کی۔ بغداد گئے تو وہاں کے مشہور محدث محمد بن مہرانؒ اور ابوغسانؒ سے احادیث سنیں، پھر عراق کی طرف رحت سفر باندھا تو وہاں امام احمد ابن حنبلؒ اور ابن مسلمؒ سے استفادہ کیا، حجاز میں گئے تو سعید بن منصورؒ اور ابو مصعبؒ جیسے جلیل القدر شیوخ کی شاگردی اختیار کی۔ مصر کی طرف رخ کیا تو وہاں عمرو بن سوارؒ سے احادیث کا ذخیرہ حاصل کیا۔
امام مسلمؒ علم حدیث کے لئے بصرہ وبلخ کے علاقوں میں بھی گئے اور حدیث کے فن میں مہارت حاصل کی۔ جب ان کی عمر چودہ سال کے قریب تھی تو انہوں نے احادیث جمع کرنے کا سفر شروع کیا تھا، اب جب کہ 259 ہجری کا سال آیا تھا تو تقریباً 53 سال کے تھے، لیکن احادیث کی تلاش کا سفر جاری تھا اور زندگی کے شب وروز فنِ حدیث میں ہی گزرے۔
نیشاپور میں ہی ایک مجلس کے دوران کی آدمی نے ایک حدیث کے متعلق پوچھا لیا، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تھا وہ ان کے ذہن سے نکل گئی۔ جونہی مجلس ختم ہوئی، گھر آئے اور رجسٹر کھول کر بیٹھ گئے اور حدیث کی تلاش شروع کرنے لگے۔ قریب ہی سوکھی کھجوروں کا ٹوکرا بھی پڑا تھا۔ امام مسلمؒ رجسٹروں کی ورق گردانی بھی کرتے رہے اور ٹوکرے میں سے کھجورے بھی کھاتے رہے۔ کافی تلاش کے بعد حدیث تو مل گئی، لیکن حدیث کی تلاش کے دوران امام صاحب اتنی کھجوریں کھا چکے تھے کہ ان کا منفی اثر ہوا اور زیادتی سے کھائی گئی کھجوریں تقصان کا سبب بن گئیں اور امام مسلمؒ 57 سال کی عمر میں اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔
امام مسلمؒ کا جنازہ سوموار والے دن ادا کیا گیا تو ہر طرف انسانی سروں کا سمندر ہی دکھائی دے رہا تھا۔ حدیث رسولؐ کی زندگی بھر خدمت کرنے والا عظیم محدث نیشاپور سے باہر نصیر آباد نامی جگہ پر منوں مٹی تلے سو گیا۔
خدا ان پر اپنی کروڑں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post