ابو زکریا التیمیؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیر الومنین سلیمان بن عبد الملک مسجد حرام میں تھے، ان کے پاس ایک پتھر لایا گیا، جس پر تراش کر کچھ لکھا گیا تھا، پس انہوں نے اسے پڑھنے والے کو طلب کیا تو حضرت وہب بن منبہؒ کو لایا گیا، انہوں نے اس کو پڑھا، جس میں لکھا تھا:
اے ابن آدم! اگر تجھے تیری بقیہ عمر کا قریب ہونا معلوم ہو جائے تو تُو لمبی آرزوؤں میں کمی کر دے اور اپنے عمل میں زیادتی کی جانب راغب ہو جائے اور اپنی حرص و ہوس کو مختصر کر دے اور تجھے بڑی شرمندگی لاحق ہو گی، اگر تیرے قدم پھسل جائیں اور تجھ سے تیرا باپ اور رشتہ دار جدا ہو جائیں اور بیٹا اور احباب تجھے چھوڑ کر چلے جائیں۔ پس پھر تو نہ دنیا میں واپس آ سکے گا اور نہ اپنے اعمال میں کوئی زیادتی کر سکے گا۔ لہٰذا قیامت کے دن کے لیے حسرت و شرمندگی سے پہلے ہی تیاری کر لے۔
یہ سن کر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک پر شدت کا گریہ طاری ہو گیا اور وہ روتے رہے۔
غصہ
غصہ نقصان پہنچانے والی اور اتنی بری چیز ہے کہ قرآن مجید میں اس پر قابو پانے کی تاکید بطور خاص کی گئی ہے۔ اس حکایت میں شیخ سعدیؒ اس بات کو ایسے بیان فرماتے ہیں۔
ایک جذباتی شخص کسی سے جھگڑ پڑا اور اول فول بکنے لگا۔ مد مقابل نے اسے خوب مارا اور اس کا لباس تار تار کردیا۔ اس کا یہ حال دیکھا تو ایک دانا شخص نے کہا: اگر تو عقل سے کام لیتا اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتا تو تیرا یہ حال نہ ہوتا تو اگر غنچے کی طرح اپنا منہ بند رکھتا تو پھول کی طرح دریدہ دامن نہ ہوتا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ایک کم عقل اور گھبرایا ہوا شخص ہی شیخی بگھارتا ہے اور اس کے نتیجے میں نقصان اٹھاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آگ سر تا پا زبان ہے۔ بھڑکتی ہے، چٹختی ہے، لپکتی ہے، لیکن پانی کی تھوڑی سی مقدار بھی اسے بجھا دیتی ہے۔
یعنی غصے کے اظہار کے مقابلے میں اس پر قابو پانا افضل ہے۔ (حکایات بوستان سعدی)
Prev Post
Next Post