ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
مجھے بھی نہ جانے کیوں اندیشہ ہورہا تھا کہ اگر یہ بچیاں ہیروئنچی باپ کے پاس رہیں تو یہ ان کا سودا کر دے گا۔ میں نے اس سے سوال کیا ’’مگر تم میرے گھر تو کبھی نہیں آئیں، کہاں رہتی ہو سارا دن؟‘‘
’’وہ نیچے والی بیمار باجی کے کام کرنے کے لیے ہم دونوں کو چھوڑ دیتی ہے۔‘‘ بڑی نے سمجھداری سے جواب دیا۔
’’کونسی بیمار باجی؟‘‘ میں اپنی بے خبری پر نادم تھی۔ ’’کیا بیمار ہیں وہ؟‘‘
’’باجی ان کو فالج ہو گیا ہے۔ پہلے تو ان کی بہو ساتھ رہتی تھی۔ اب اس نے الگ گھر لے لیا ہے۔ یہ باجی بالکل اکیلی ہیں۔ ہل جل بھی نہیں سکتیں۔ اماں نے کہا تھا ایسے انسان کا کام کرنے سے خدا خوش ہوتا ہے۔ میری اماں جب گھروں میں کام کرنے کے لیے نکلتی ہے تو سب سے پہلے یہیں نیچے والی باجی کے گھر آتی ہے۔ ان کے گھر کی چابی میری ماں کے پاس ہے۔ وہ پہلے ان کا منہ دھلاتی ہے، صفائی کرتی ہے، ان کا بستر صاف کرتی ہے۔ چائے پلاتی ہے۔ کپڑے بدلاتی ہے، پھر ہم دونوں کو اس کے پاس چھوڑ کر آپ لوگوں کے کام کرتی ہے۔ شام کو واپسی پر ہمیں اپنے ساتھ لے لیتی ہے۔‘‘
’’مگر تم دن بھر کیا کرتی ہو؟‘‘
’’ہم دونوں ان باجی کے ہاتھ پائوں کی مالش کرتے ہیں، ان کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘
’’کھانا کون پکاتا ہے؟‘‘ میں ماسی اور اس کی بچیوں کی ان خوبیوں کی دل سے معترف ہوتی جا رہی تھی۔ ’’آپ لوگ جو کھانا دیتے ہیں نا، وہ اماں بیمار باجی کو کھلا دیتی ہے۔ کبھی کبھی جب اس کو کام سے جلدی فراغت ہوتی ہے تو تازہ بھی پکا کر باجی کے فریج میں رکھ دیتی ہے۔‘‘
مجھے یاد آیا کہ میں نے جب بھی ماسی کو کوئی اچھی چیز کھانے کے لیے دی۔ اس نے ہمیشہ شاپنگ بیگ میں رکھ لیتی۔ میں اصرار کرتی تو وہ ٹال دیتی۔ ’’بچیوں کے ساتھ کھائوں گی باجی۔ ان کے بغیر حلق سے نہیں اترتا۔‘‘
میں اپنی بدگمانیوں، بدظنی اور اعتراف ندامت میں غرق ہورہی تھی۔ اس غریب اور ناتواں عورت کا قد کتنا بڑا ہے جو ہم جیسے جھوٹے عزت داروں کے ساتھ سب سے آگے کھڑی ہے۔ ’’تمہاری اماں کو ان کاموں کے پیسے کون دیتا ہے؟‘‘ میرا بے ایمان دل اب بھی اس کے خلوص کو دل سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ ’’میری ماں ان کاموں کے کسی سے کوئی پیسے نہیں لیتی۔ کہتی ہے ہم سارے کام صرف اپنے ہی لیے کرتے ہیں۔ کچھ کام اپنے خدا کے لیے بھی کرنا چاہئے۔ جس کے پاس ہمیں ہر چیز کا حساب دینا ہے۔‘‘ میں اچھل پڑی۔ ’’خدایا یہ فہم، یہ ادراک تو بڑے بڑے ولیوں کو نہیں ہوتا، جو اس غریب و نادار عورت کو تھا۔‘‘ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’باجی ان بیمار باجی کے پیسے کون دے گا؟ ان کا بیٹا تو ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ اس خبر نے تو باجی کو بیمار کر دیا تھا۔ بہو نے دوسرا گھر لے لیا۔‘‘
میں اندر ہی اندر نادم تھی۔ ان تمام حالات سے بے خبری پر۔ محلے پڑوس کا حق صلہ رحمی میں شامل ہے۔ میں نے تو قطع رحمی کی انتہا کر دی۔ ماسی کی نیکیوں اور خوبیوں کی پرتیں کھلتی جارہی تھیں اور میں ندامت کی پاتال میں گرتی ہی جا رہی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے لوگ جن کو عام حالات میں ہم اپنے برابر بٹھانا پسند نہیں کرتے، یہ قطب اور ولیوں سے بڑھ کر نیک سچے ہمدرد اور سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔ ہم اپنی عزت صرف دکھاوا، تصنع، مادیت پسند حرص و ہوس میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ غریب کتنے وسیع القلب اور سچے کھرے لوگ ہیں۔ جو دکھاوے کی نمازیں بھی نہیں پرھتے۔ بظاہر روزہ نماز اس طرح نہیں کرتے، جس طرح ہم اہتمام کرتے ہیں، مگر ہر وہ اچھائی جو اسلام کی خوبی ہے، وہ ان میں موجود ہے۔ اعلیٰ ظرف اور اچھے مسلمان کی علامت۔ ہم اپنی عبادتوں کے زعم میں دوسرے کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیتے ہیں۔ بدگمانی، غیبت، بدظنی، بددیانتی یہی تو ہماری خوبیاں ہیں۔ اس وقت میں نے اپنی ہر بری عادت پر ملامت کی۔ بچی سے پوچھا: ’’تمہاری اماں اس وقت کہاں گئی ہے؟‘‘ مجھے لگا جیسے اصل بات کچھ اور ہے۔
’’ابا نے آج ہم دونوں بہنوں کا کسی آدمی سے سودا کر لیا ہے۔ اماں نے سن لیا، وہ ہم دونوں کو اسی وقت لے کر نکل پڑی اور سیدھا یہیں آپ کے گھر لے آئی۔‘‘
’’اوہ میرے خدا۔‘‘ میں لرز گئی۔ وہی ہوا، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ میں نے ان دونوں بچیوں کو اپنے بازوئوں میں بھر لیا۔ نہ جانے اس وقت کہاں سے مجھ میں ممتا کی آگ بھر گئی۔ میں ان دونوں کے لیے اسی طرح پریشان ہو گئی، جیسے ایک ماں۔ اپنے بچوں کو دکھ میں دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہے۔ ’’تمہاری ماں اس وقت کہاں گئی ہے؟‘‘ مجھے ماسی کے خیال نے بے کل سا کر دیا۔ میرے سوال پر دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کو دیکھا،
جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہوں کہ ان کو بتانا چاہئے یا نہیں کہ اس وقت اماں کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے؟
میں نے چمکار کر تسلی دی۔ ’’ہاں، ہاں بتائو۔‘‘
’’وہ ابا کو قتل کرنے گئی ہے۔‘‘ دونوں نے یک زبان ہو کر کہا۔
میں پھر اچھل پڑی۔ ’’خدایا رحم۔‘‘ وہ دونوں بولتی چلی گئیں۔ ’’اماں نے کہا تھا میں اس شر کے دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کر دوں گی۔ تم دونوں انہی باجی کے پاس رہنا۔ اگر میں زندہ بچ گئی تو آکر تمہیں لے جائوں گی، ورنہ تم دونوں انہی باجی کا کام کرنا اور انہی کے پاس رہ لینا، ان باجی کے اولاد نہیں ہے، وہ تمہیں بہت پیار دیں گی۔‘‘
’’خدایا، یہ کیسی خوش گمان عورت ہے، جو مجھ جیسی بانجھ سے ایسی اچھی اچھی امیدیں وابستہ کئے بیٹھی ہے۔ میں بنجر زمین جہاں پیار کا کوئی بیج نہیں اگتا، جہاں ممتا کے سوتے نہیں پھوٹتے، وہاں اتنا بے لوث یقین ایسا وثوق۔ میں تڑپ کر رو دی۔ اس کی اس خوش فہمی پر کہ میں بھی مائوں کی طرح بن سکتی ہوں۔ مجھے احساس محرومی ہونے لگا۔ میں نے اس احساس کو مٹانے کے لیے ان دونوں کو سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔ مجھے اچانک روتا دیکھ کر وہ دونوں بھی رونے لگیں۔ ننھی ننھی سی معصوم سسکیوں نے مجھے تڑپا دیا۔ میں نے آنسو پونچھ کر ان سے پوچھا: ’’تم دونوں نے کھانا کھایا؟‘‘
انہوں نے میرے سینے سے لگے ہوئے سر انکار میں ہلا دیا۔ ’’امی کے سارے پیسے ابا چھین لیتا ہے۔ ہم لوگوں کے پاس کھانے کو کئی کئی دن کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ وہ خشک ہونٹ، زرد چہرے اور بہتی آنکھوں کے ساتھ اپنا دکھ بیان کر رہی تھیں۔ خدایا، ہمارے اطراف میں کیسے کیسے مسکین اور مجبور لوگ ہیں، جن سے بے خبر ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ میں نے آہستہ سے ان کو بازوئوں سے الگ کیا۔ فریج میں رکھی ہوئی کئی ڈشیں تھیں، جنہیں میں سحری کے لیے بنا کر رکھتی تھی۔ میں نے قیمہ اوون میں گرم کیا۔ پراٹھے نکالے اور دونوں کے سامنے ٹرے میں لاکر رکھ دیا۔ میں منہ سے کچھ نہ بولی۔ شاید مجھ میں اتنا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ میں تین دن کے بھوکے بچوں سے کچھ کہہ سکوں۔ وہ کھانا دیکھ کر آہستہ سے بولیں ’’باجی میری ماں بھی بھوکی ہے۔ ہم اس کے بغیر کھانا نہیں کھاتے، نہ وہ ہمارے بغیر کھاتی ہے۔‘‘ میرے آنسو ایک بار پھر دل میں سوراخ کرنے لگے۔ میرا پورا وجود آنسوئوں میں ڈوب رہا تھا۔ مجبوری، مفلسی اور بے چارگی کے کتنے رنگ ہوتے ہیں۔ جو یہ صابر اور شاکر خدا کے بندے اپنے اوپر ڈال لیتے ہیں۔ میں نے بھیگے لہجے میں کہا۔ ’’تم دونوں تو کھانا کھا لو۔ اماں آئے گی تو اس کو بھی کھلا دوں گی میں۔‘‘ میں نے پراٹھے کا لقمہ توڑ کر قیمہ سے لگایا اور چھوٹی کے منہ میں دینا چاہا۔ اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا۔ ’’مجھے بھوک نہیں۔‘‘ میں نے وہی لقمہ بڑی کی طرف بڑھایا۔ ’’باجی ہم اماں کے ساتھ ہی کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا اور میں کھسیا گئی۔ کیسی صابر شاکر بچیاں ہیں جو فاقے میں بھی ماںکے بغیر کھانے کا تصور نہیں کرتیں۔ نہ نوالہ توڑنے پر آمادہ ہیں۔ ’’تم نے کب سے کھانا نہیں کھایا؟‘‘ میں نے خوامخواہ سوال کیا۔ ’’کئی دن پہلے ساگ روٹی کھایا تھا۔‘‘ میں لرز گئی۔ وہ باسی کڑوا زیادہ نمک کی وجہ سے بدمزہ ساگ میں نے ہی اسے دیا تھا اور اس نے خاموشی سے شاپنگ بیگ میں ڈال لیا تھا۔ وہی کڑوا ساگ تین دن پہلے ان کی آخری خوراک تھا۔ جس کو میں نے احسان سمجھ کر دیا تھا۔ اب میرا آرام، میری نیند، میری عبادت صرف اسی صورت میں رب کے حضور قبول ہو سکتا ہے جب یہ معصوم مجھے دل سے قبول کر لیں۔ میں نے ان کی دلداری کرتے ہوئے توس پر جام لگا کر ان کے سامنے پلیٹ میں رکھ دیا۔ ’’اچھا یہ کھالو، یہ تو کھانا نہیں ہے نا۔ کھانا تم دونوں اماں کے ساتھ کھا لینا۔ ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے انتہائی لجاجت اور خوشامد سے کہا۔ اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اگر ان بچیوں نے آج پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا تو شاید خدا کے ہاں میری بخشش ہو جائے۔ اس بخشش کی طلب نے مجھے انتہائی خودغرض بنا دیا تھا۔ میں ان کی خوشامد کر کے ان کی رضا کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھی۔ انہوں نے جھجکتے ہوئے ایک توس اٹھایا۔ میں انہیں کھاتا دیکھ کر جلدی سے فریج سے دودھ کا ڈبہ نکالا۔ گلاس میں ڈالا اور بغیر کچھ کہے ہوئے ان کے ہاتھ میں دودھ کے گلاس پکڑا دیئے۔ انہوں نے بغیر کچھ کہے خاموشی سے دودھ پی لیا۔ انہیں دیکھ کر مجھے عجیب سی طمانیت کا احساس ہونے لگا جیسے ان کی خدمت اور دلداری ہی میرا مقصد حیات اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ گلاس خالی ہوئے تو میں نے ان کے ہاتھ سے لے کر دونوں کو اپنی مسہری پر لٹا دیا۔ آہستہ آہستہ دونوں کی کنپٹیوں کو سہلایا۔ وہ دونوں تھوڑی ہی دیر میں خراٹے لینے لگیں۔ میری نیند غائب ہو چکی تھی۔ ان کو لٹا کر میں دوسرے کمرے میں آگئی۔ اکیسویں شب قدر تھی، اس لیے وضو کر کے نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ بچیاں اب بے خبر سو رہی تھیں۔ میں نے ہلکی سی چادر ان پر ڈال کر پنکھا تیز کر دیا۔ دوسرے دن کا اخبار میری توقعات کے عین مطابق تھا۔ ماسی کی خبر شہر کی خبروں کے صفحے میں موجود تھی۔ ’’ایک عورت نے اپنے نشہ باز شوہر کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔‘‘ خبر کی تفصیل بالکل اسی طرح تھی جیسا کہ بچیوں نے بیان کیا تھا۔ میں نے بہتے ہوئے آنسوئوں کو اچھی طرح بہنے دیا۔ کیونکہ اب مجھے بچیوں کے سامنے ایک بہادر ماں بن کر رہنا تھا۔ جو زمانے کے سرد و گرم سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکے۔ یہ آنسو اب دوبارہ ان آنکھوں میں نہیں آنا چاہئے۔ میں نے بہت دیر بعد انہیں صاف کیا۔ بچیاں ابھی تک سو رہی تھیں۔ میں نے اے سی آن کر کے کمبل ان کو اوڑھا دیا اور خود دروازہ بند کر کے دوسرے کمرے میں آگئی، تاکہ وہ اپنی نیند پوری کر لیں۔ ٭
Prev Post
Next Post