مسعود ابدالی
فرانس میں ہنگاموں کے بعد اب ہنگری میں بھی مظاہروں کا آغاز ہوگیا ہے اور اتوار کو ہزاروں مزدوروں نے دارالحکومت بڈاپسٹ کے مرکزی چوک پر دھرنا دیا۔ ہنگری کے مزدوروں میں بے چینی کی وجہ ایک نیا مسودہ قانون ہے، جسے نسل پرست و مسلم مخالف وزیر اعظم وکٹراوربن کی فرمائش پر وزارت محنت نے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ بل کے مطابق آجر اپنے مزدوروں سے 400 گھنٹہ سالانہ اضافی مزدوری بلا Overtime لینے کا مجاز قرار پائے گا یا یوں سمجھئے کہ ہر ہفتہ مزدوروں کو 8 گھنٹہ اضافی کام کرنا ہوگا، جس کا اوور ٹائم نہیں ملے گا۔ مزدور یونینوں نے زیر غور بل کو ’’بیگاری کا قانون‘‘ قرار دیا ہے۔
مزدوروں کے ساتھ طلبہ بھی فیسوں میں اضافے پر ’’آزاد ملک مفت تعلیم‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور ’’ہم غلام نہیں ہیں‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے بڈاپسٹ کی فضا گونج اٹھی۔ 17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے دارالحکومت میں آزادی کے نام سے تحریک اٹھی تھی، جس کا دائرہ صرف چند دنوں میں لیبیا، مصر، یمن، شام، کویت، مراکش، اردن اور ساری عرب دنیا میں پھیل گیا۔ بدقسمتی سے اس شاندار تحریک کو عالمی قوتوں نے ناکام بنا دیا اور مسلمانوں کے ہنستے بستے ممالک راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ کیا فرانسیسی محنت کشوں کی جرأت مندانہ جدوجہد سے متاثر ہو کر یورپ کے مزدور اپنے حقوق کیلئے ایک ہو رہے ہیں؟ فرانسیسی مزدور گزشتہ کئی ہفتوں سے سڑکوں پر ہیں۔ ہفتہ کو ایک لاکھ کے قریب پولیس اور نیم فوجی دستے بھی عوام کو مرعوب نہ کر سکے اور پیرس میں ہزاروں مظاہرے جاری ہیں۔ معاملہ پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکس سے آگے بڑھ چکا ہے اور اب لوگ ٹیکس لگانے والوں سے بھی چھٹکارا چاہتے ہیں۔ پیرس کی مرکزی شاہراہ Champs Elysees ایونیو صدر میخواں مردہ باد کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ فرانسیسی ثقافت کی علامت Mont Blanc، Cartier اور دوسری فیشن ایبل دکانوں کو فولادی شٹر سے بند کر دیا گیا ہے کہ کہیں پیرس کے بھوکے انہیں لوٹ نہ لیں۔ مظاہرین پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ اکثر نے آنسو گیس سے بچنے کیلئے چہرے پر ماسک لگا رکھے ہیں۔ CNN کے مطابق پولیس آنسو گیس کے ساتھ ربر کی گولیاں بھی استعمال کر رہی ہے۔
فرانس کا دارالحکومت پیرس سنسان ہے۔ ایفل ٹاور جانے والے راستے بند ہیں۔ صدارتی محل کی سڑک پر کنٹینرز کھڑے کردیئے گئے ہیں۔ سیاحوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہوٹلوں سے نہ نکلیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے اپنے شہریوں کو پیرس جانے سے منع کیاہے۔ وجہ؟ آزاد معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام کی چکی نے غریبوں کا کچومر بنا دیا ہے۔ تعلیم و صحت کی سہولتیں مہنگی، پبلک پارک اور عوامی کتب خانوں کی فیسوں میں ہوشربا اضافہ تو دوسری طرف حکمراں طبقے کو ہر سہولت میسر ہے۔ غریبوں کا خون امیر طبقے کے عارض و رخسار پر سرخی بن کر چمک رہا ہے۔
تین ہفتہ پہلے حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ دلیل یہ دی گئی کہ سستا ایندھن بے دردی سے پھونکا جاتا ہے۔ اسے مہنگا کردینے سے پیٹرول کے استعمال میں کمی ہوگی، جس سے کفایت کے ساتھ ماحول بھی بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوگا۔ لیکن اب لوگ اتنے بھولے نہیں رہے کہ ایسے لاروں میں آجائیں، چنانچہ پیلی جیکٹ پہنے مزدو سڑکوں پر آگئے اور سارا فرانس مفلوج ہوکر رہ گیا۔ مشتعل مظاہرین نے پیرس میں شدید توڑ پھوڑ کی اور درجنوں گاڑیاں نذرِ آتش کردی گئیں۔ ان مظاہروں میں 3 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد گرفتار کئے گئے۔
اس شدید ردعمل سے حکومت کا دماغ کچھ درست ہوا اور قوم سے اپنے خطاب میں فرانسیسی وزیر اعظم نے بہت معصومیت سے کہا کہ انہیں ٹیکسوں میں اضافے پر عوام کے غم و غصے کا اندازہ نہیں تھا۔ وزیراعظم کا یہ بیان سن کر ہمیں انقلاب فرانس کے دوران ایک بڑے مظاہرے پر شہزادی صاحبہ کا جملہ یاد آگیا۔ محترمہ اپنے بالا خانے سے مظاہرہ دیکھ رہی تھیں، انہوں نے اپنی ایک مددگار سے پوچھا کہ ان لوگوں کو کیا شکایت ہے؟ مددگار نے کہا کہ لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی۔ شہزادی صاحبہ نے بڑی معصومیت سے کہا تو اس پر جلوس نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔ روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھائیں۔
عوام کے غم و غصے کا ادراک کرنے کے بعد یوٹرن کے بجائے وزیر اعظم صاحب نے شاطرانہ چل چلی اور نئے محصولات کے اطلاق کو چھ ماہ کیلئے موخر کر دیا، یعنی اب یہ اضافہ جنوری کے بجائے یکم جولائی سے نافذ العمل ہوگا۔ عوام بھی ایسی کچی گولی کھیلے ہوئے نہیں۔ چنانچہ ایک زبردست عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب مزدوروں کے ساتھ طلبہ، وکلا اور عام لوگوں نے بھی سڑکوں پر آرہے ہیں۔ سرکار چاہے پاکستان کی ہو یا فرانس کی، سب کے تیور ایک ہی جیسے ہیں۔ چنانچہ فرانسیسی حکومت کا بیانیہ بھی وہی ہے کہ ’’مٹھی بھر لوگ نظام زندگی درہم برہم کرنا چاہتے ہیں… شرپسندوں کو کچل دیا جائے گا… حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے گی… خبردار ریاست سے نہ ٹکرائو… وغیرہ اور مظاہرے کو ناکام بنانے کیلئے سارا دارالحکومت بند کر دیا گیا ہے۔ 80 ہزار پولیس والوں کی نصرت کو نیم فوجی دستوں کے 89 ہزار سپاہی بھی تعینات کردیئے گئے ہیں۔ دوسری طرف عوام بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔ ٹویٹر پر مظاہرین نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ وہ کب تک شہر کو بند رکھ سکتی ہے؟ اس لئے کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں اور جب بھی پولیس کا ناکہ ختم ہوا، احتجاج شروع کر دیا جائیگا۔ اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں۔