امام غزالیؒ کا نام نامی ’’محمد‘‘ پدر بزرگوار اور دادا کا نام بھی ’’محمد‘‘ ہی تھا۔ آپؒ کا لقب حجۃ الاسلام اور کنیت ابو حامد ہے۔ خاندان میں سوت اور دھاگے کا کام کیا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے اپنے کو غزالی تحریر فرماتے ہیں۔ عربی میں ’’غزال‘‘ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ خراسان کے علاقے میں طوس کے ضلع ظاہران شہر میں 452ھ مطابق 1052ء کو ولادت باسعادت ہوئی۔
اس زمانے میں علمائے کرام اپنے خاندانی پیشوں یا القاب پر ہی اپنے کو بھی مشہور کرتے تھے اور کسی حلال پیشے کو عار بھی نہ سمجھتے۔ اس لئے خود تحریر فرمایا کہ میں خاندانی حیثیت سے جولاہا ہوں۔ والد بزرگوار بڑھئی کا پیشہ کرتے اور اس کے متعلق بھی خود لکھا ہے۔ امام صاحبؒ کے نانا محترم نانبائی کا پیشہ کرتے تھے۔ جیسا کہ اکثر حضرات انبیائے کرامؑ اور صحابہ کرامؓ کسی نہ کسی شعبہ زندگی سے منسلک تھے۔ کوئی نہ کوئی کام اپنی گزر بسر کے لئے کرتے تھے۔
آپؒ کی ولادت کے وقت طغرل بیگ سلجوقی کی حکومت تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان اپنے انتہائی عروج کی منازل طے کر رہے تھے۔ ہر طرف سکون اور امن کی زندگی کا دور تھا۔ اسلام کو چار چاند لگ رہے تھے۔ اس زمانے میں عموماً مسلمان پیشہ وری اور سپہ گری کو اچھا سمجھتے تھے۔ زیادہ تر علمائے کرام تحصیل علم سے فراغت پا کر کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کر لیتے تھے۔ امام صاحبؒ کے والد بزرگوار اتنے پڑھے ہوئے نہ تھے، لیکن علم کی اعلیٰ خصوصیات سے واقف تھے اور بیٹے کیلئے دلی خواہش تھی کہ یہ پروان چڑھے۔
چنانچہ کچھ روپیہ صرف اسی نظریے کے تحت جمع کیا اور ہونہار بیٹے کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ آپؒ نے جب ذرا ہوش سنبھالا، تو خود بھی علم کی طرف راغب ہوگئے۔ دل میں خدا کی معرفت کا نور تھا۔ انتہائی ذہین تھے۔ باپ کی محبت بھری نگاہیں بھی علم کی طرف مشغول کر رہی تھیں۔ توفیق ایزدی بھی شامل حال ہوئی اور بچپن ہی میں ابتدائی علوم حاصل کئے۔ باپ نے کچھ جمع شدہ روپیہ بیٹے کو دیا اور حصول علم کی وصیت کرکے رحلت فرمائی۔ وہ پونجی بھی ختم ہوگئی اور رفتہ رفتہ خالی ہاتھ ہوگئے۔ یہ وقت آپؒ کیلئے ذرا سخت گزرا، کیونکہ اب کوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا۔ آپؒ نے ابتدائی علوم ظاہران میں ہی اپنے استاد احمد بن محمد ممتاز عالم وقت سے حاصل فرمائے۔ آپؒ کے استاد نے آپؒ کو مدرسہ نظامیہ بغداد کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت فرمائی۔
اس زمانے میں صرف دینی تعلیم کا رواج تھا اور تمام مدارس بادشاہوں اور امراء ورؤسا کی امداد پر چلتے تھے۔ آج تک وہی رواج مسلمانوںکے عربی مدارس میں چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے مدارس اس دستور کے مطابق چل رہے ہیں۔ جہاں مسلمان بچوں کے لیے تعلیم، کھانا وغیرہ اور رہائش کا مفت انتظام ہوتا ہے۔ چنانچہ آپؒ سب سے پہلے جرجان تشریف لے گئے، وہاں ابو نصر اسمٰعیل کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر آپؒ وطن تشریف لائے۔
امام صاحبؒ کو راستے میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
واپسی پر راستے میں قزاقوں کے گروہ نے آپؒ کا سب کچھ لوٹ لیا، حتیٰ کہ علم کا وہ مجموعہ جو امام صاحبؒ نے بڑی محنت و کاوش سے وہاں لکھا تھا۔ وہ بھی ڈاکوؤں کے ہاتھ سے نہ بچ سکا۔ آپؒ کو اپنے سامان کی کوئی پروا نہ تھی۔ لیکن اس مجموعے کو آپؒ جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے، چنانچہ انتہائی بہادری اور اولوالعزمی کے ساتھ ڈاکوؤں کے گروہ میں پہنچے اور اس گروہ کے سرغنہ سے فرمایا کہ تم لوگ میرا سب کچھ لے سکتے ہو، لیکن وہ مجموعہ جو تمہارے کسی کام کام نہیں اور میرا سب کچھ اسی میں ہے، یہ مجھے واپس کر دو۔
ڈاکوؤں کا سردار امام صاحبؒ کی اس بات پر اول ہنسا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو کچھ پڑھا اور اس میں رکھ دیا ہے اور اپنی پاس کچھ نہیں رکھا؟ یہ کہہ کر آپؒ کو وہ کتابچہ واپس کردیا۔ آپؒ کو سردار کی بات پر ندامت بھی ہوئی اور واپس آکر اس پورے کتابچے کو ازبر کر ڈالا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post