ابھی تھوڑی ہی دیرٹھہرے ہوں گے کہ حضرت عطاءؒ اور میرے والد کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اور دونوں اندر چلے گئے۔
کچھ دیر بعد جب میرے والد محل سے باہر آئے تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ دونوں کے ساتھ اندر جاتے وقت جو حالات پیش آئے، وہ مجھے بھی بتادیجئے! تو میرے والد صاحب کہنے لگے:
جب ہشام کو پتہ چلا کہ دروازے پر عطاء بن ابی رباحؒ ہیں تو جلدی سے دوڑ کر آئے اور ان کو اجازت دی۔ خدا کی قسم! میں تو ان ہی کی وجہ سے اندر جا سکا (مطلب یہ ہے کہ اگر عطاء بن ابی رباح نہ ہوتے تو نہ معلوم مجھے اندر جانے کی اجازت ملتی یا نہیں)
جب خلیفہ ہشام نے حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو دیکھا تو ’’مرحبا مرحبا‘‘ کہا (یعنی بار بار خوش آمدید کہا) اور مسلسل ’’یہاں‘‘ تشریف رکھئے کہتے رہے، یہاں تک کہ ان کو اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھایا اور اپنے گھٹنے ان کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گئے (یہ انتہائی ادب و احترام کے طور پر ہوتا ہے)
اس مجلس میں بڑے بڑے (عہدوں کے اعتبار سے) لوگ تھے جو آپس میں گفتگو کررہے تھے، وہ بھی خاموش ہوگئے۔
پھر ہشام، عطاء بن ابی رباحؒ کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے: اے ابو محمد! (یہ ان کی کنیت تھی) آپ کس حاجت کے لیے تشریف لائے؟
عطاء بن ابی رباحؒ نے فرمایا:
اے امیر المؤمنین! حرمین والے لوگ (یعنی مکہ اور مدینہ والے) خدا اور رسولؐ کے پڑوسی ہیں، آپ خوراک و عطیات ان پر بھی تقسیم کیا کریں۔
ہشام نے کہا: ٹھیک ہے اور غلام (منشی) سے کہا کہ اہل مکہ اور اہل مدینہ کیلئے ایک سال کی خوراک و عطیات لکھ لو۔
پھر کہنے لگے: ابو محمد! اس کے علاوہ اور کوئی حاجت ہو تو بتائیں۔
عطاء بن ابی رباحؒ نے فرمایا: جی ہاں اے امیر المؤمنین!
’’اہل حجاز اور اہل نجد‘‘ اصلی عرب اور اسلام پسند روشن دماغ لوگ ہیں، آپ ان میں زائد صدقات لوٹا دیا کریں۔
تو ہشام نے کہا: ٹھیک ہے اے غلام! لکھ لو کہ ان کے زائد صدقات ان کو واپس کردیئے جائیں گے۔
پھر ہشام نے پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور حاجت؟
انہوں نے فرمایا: جی ہاں! اہل ثغور (وہ مجاہدین اور فوجی جو ملک کی خطرناک سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں) تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور جو بھی مسلمانوں کی نقصان پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو ان کے ساتھ لڑتے ہیں ان دشمنوں کو قتل کردیتے ہیں، آپ ان کے لیے وافر مقدار میں خوراک (کی مدد) مسلسل بھجوانے کا انتظام کریں، کیوں کہ اگر وہ ہلاک ہوگئے تو سرحدوں کی حفاظت کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
ہشام نے کہ ٹھیک ہے اے غلام! لکھ لو سرحدوں کے محافظین کے لیے خوراک روانہ کردی جائے۔
پھر ہشام نے پوچھا: اے ابو محمد! اس کے علاوہ کوئی اور حاجت؟
توفرمانے لگے: جی ہاں اے امیر المؤمنین! آپ کے ذمی (یعنی وہ کافر جو ٹیکس دے کر اسلامی ملک میں رہتے ہیں) جتنے بھی ہیں، ان کو ان کی طاقت سے زیادہ کسی کام کی تکلیف نہ دی جائے، کیوں کہ ان کے ساتھ جتنی بھی رعایت ہوگی، وہ آپ کے دشمن کے مقابلے میں آپ کیلئے معاون بنیں گے۔
ہشام نے کہا: اے غلام! لکھ لو، ذمیوںکو (ایسی مشکل جو برداشت نہ ہو) سے بری کردیا جاتا ہے، ذمیوں کو ان کے بس سے زائد کام کی تکلیف نہ دی جائے۔
ہشام نے پھر سوال کیا اے ابو محمد! اس کے علاوہ اور کوئی حاجت ہو تو بتایئے؟
عطاء بن ابی رباحؒ نے فرمایا: ’’جی ہاں اے امیر المؤمنین! اپنے بارے میں بھی خدا سے ڈریئے۔ اچھی طرح جان لیں کہ جب آپ پیدا ہوئے تو اکیلے تھے… اور جب مریں گے تو اکیلے ہی جائیں گے… اور میدان حشر میں بھی اکیلے ہی ہوں گے اور حساب کتاب کے وقت بھی اکیلے ہی ہوں گے۔ خدا کی قسم! یہ (جتنے لوگ نوکر چاکر یا مال و دولت، عہدہ و منصب) جو کچھ آپ کو نظر آرہا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔‘‘
یہ سن کر ہشام نیچے زمین کی طرف نظریں جھکا کر رونے لگے:
پھر عطاء بن ابی رباحؒ اٹھے اور میں بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ جب ہم دروازے کے قریب پہنچے تو ایک آدمی ان کے پیچھے پیچھے ایک تھیلی (جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ اس میں کیا تھا) لے کر آرہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ امیر المؤمنین نے آپ کے لئے بھیجی ہے۔
عطاء بن ابی رباحؒ نے فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے میں قبول نہیں کر سکتا۔ میں تم سے اپنی اس وعظ و نصیحت کے بدلے کچھ نہیں مانگتا میرا اجر تو میرے پروردگار کے ذمے ہے جو تمام مخلوقات کے رب ہیں‘‘۔
خدا کی قسم! عطاء بن ابی رباحؒ خلیفہ کے دربار میں داخل ہوئے اور وہاں سے فارغ ہوکر باہر نکلے، لیکن انہوں نے وہاں پر ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post