جُوا کسی کا نہ ہوا

0

روزنامہ امت میں میرا کالم ’’درد کی شدت سے گھبرا کے‘‘ مورخہ 23.10.18 کو شائع ہوا۔ یہ کالم میری ان تحریروں کا تسلسل تھا، جو میں نے اپنے بچپن کے ایک دوست کے بارے میں آپ کو بتایا تھا، جو مادی ترقی کے زینے پھلانگتا ہوا بام عروج پر پہنچ گیا ہے۔ اوسط سے بھی کم فیملی سے تعلق رکھنے والا یہ دوست اسکول کالج میں نالائق ترین طلباء میں شمار کیا جاتا تھا، مگر آج وہ بزنس ٹائیکون بن چکا ہے۔
23 اکتوبر کے کالم میں، میں نے اس کی ترقی کا چار نکاتی فارمولا آپ کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے دوست کا پاؤں ترقی کی تیز رفتار گاڑی کے ایکسیلیٹر پر رکھا ہوا ہے۔ وہ فراٹے بھرتی گاڑی کی رفتار بڑھائے جا رہا ہے۔ اسے کوئی پروا نہیں ہے کہ کب اچانک اسپیڈ بریکر آجائے۔ میں نے اسے کوئی نصیحت نہیں کی۔ بس چپ چاپ اس کی شیطانی تھیوریاں سنتا رہا۔
چند دن پہلے کال بیل بجی۔ دیکھا تو وہی پرانا یار آیا ہے… اس کی حالت دیکھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی۔ ساتھ ہی افسوس بھی ہوا۔ بے ترتیب لباس، بڑھی ہوئی شیو، بال بکھرے ہوئے تھے۔ ان پر کلر بھی نہیں تھا۔ میرا دوست صدیوں کا مریض نظر آرہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا؟‘‘
جواب دینے کے بجائے میرا دوست پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ میں چاہتا تھا کہ بغیر کسی مداخلت اور استفسار کے وہ سب کچھ خود بتائے۔ چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد اس نے کہنا شروع کیا: ’’ماسٹر، میرے سب خواب چکنا چور ہوگئے، میں لٹ گیا، برباد ہوگیا، میں کنگال شخص ہوں، جس کے ہاتھ خالی ہیں، میری تمام تھیوریاں غلط ثابت ہوگئی ہیں، اب میرے پاس کچھ نہیں رہا، کچھ نہیں رہا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا، شاید اپنی کہانی سنانے کے لئے الفاظ ترتیب دے رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟ تم ان حالات کو بیان کرو، جن کی وجہ سے تم کہہ رہے ہو کہ تم تباہ و برباد ہوگئے ہو؟‘‘
میرے دوست نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا: ’’ماسٹر، کراچی اور لاہور میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے
خلاف مہم میں میرے چلتے ہوئے دو اسکول گرا دیئے گئے ہیں، اسلام آباد میں دس ہزار گز کا کمرشل پلاٹ سی ڈی اے نے منسوخ کرکے کروڑوں کی سرمایہ کاری لوٹ لی، اس ہاؤسنگ اسکیم میں جہاں تو رہتا ہے، تمام پلاٹوں کی قیمت صفر پر آگئی ہے، کیونکہ اس کے معاملات کورٹ میں ہیں، رہی سہی کسر میرے بیٹوں نے پوری کردی ہے، بڑے بیٹے نے میرے بھانجے کے ساتھ جوا کھیلتے ہوئے کروڑوں روپے ہار دیئے ہیں، چھوٹے بیٹے نے ایک ہاؤسنگ پراجیکٹ میں سینکڑوں الاٹیز سے اربوں روپے اینٹھ کر لندن میں جائے پناہ ڈھونڈ لی ہے۔ میرا پوتا حوالات میں بند ہے، کیونکہ سولہ سال کی عمر میں نئی مرسیڈیز چلاتے ہوئے اس نے دو افراد کو کچل کر ہلاک کر دیا ہے۔ اب ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دے سکیں۔ بند اکاؤنٹ خالی ہیں، کئی چیک باؤنس ہو چکے ہیں۔ میرے خلاف 489-F کا پرچہ کٹ گیا ہے۔ میں آج کل ضمانت پر ہوں، جو بیٹا لندن بھاگ گیا ہے، اس نے ہم سب سے چھپ کر دوسری شادی رچا لی تھی، بڑی بڑی رقمیں دوسری بیوی کے اکاؤنٹس میں ہیں۔ اس سے رابطہ کرتا ہوں تو وہ گالم گلوچ پر اتر آتی ہے، منہ ہی نہیں لگاتی، پہچانتی ہی نہیں ہے۔ میں نے بینکوں سے سود پر جو قرضے لئے ہوئے ہیں، میں ان کا ڈیفالٹر ہوگیا ہوں، میرے تمام مال و اسباب اور اثاثوں کو بینکوں نے ٹیک اوور کرلیا ہے، میرے پاس کچھ نہیں رہا، میں زیرو پر آگیا ہوں زیرو پر…‘‘
یہ کہہ کر اس نے سر جھکا لیا اور خاموش بیٹھا رہا۔ میں بھی سکتے کی حالت میں تھا۔ عروج سے زوال، ترقی سے تنزلی اور عزت سے ذلت کی ڈھلوان دیکھ کر میں کانپ گیا… میں نے اس سے ایک بے تکا سوال پوچھا: ’’وہ تمام سرکاری افسران کہاں ہیں، جن کی مدد سے تم نے ترقی کا منحوس سفر طے کیا تھا؟‘‘
اس نے ایک سرد آہ بھری اور بولا: ’’ماسٹر، سب غائب ہوگئے، ان کے موبائل آف ہیں‘‘۔ میں نے دل میں کہا: ’’یہ تو ہونا ہی تھا، برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے، یہ تو پھر روغنی ہڈی بھنبھوڑنے والے کتے تھے‘‘۔
میرے دوست نے التجائیہ لہجے میں کہا: ’’ماسٹر، میں تیرے پاس یہ درخواست لے کر آیا ہوں کہ مجھے کوئی ایسا مشورہ دے کہ اس خوفناک بحران سے نکل آؤں‘‘۔
میرا ذہن خالی اور دل بوجھل تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ حق تعالیٰ جب چاہے، جس کو چاہے، اوج ثریا سے زمین پر پٹخ دے۔ میں نے ناصحانہ انداز میں کہنا شروع کیا: ’’دیکھ میرے بچپن کے دوست! اگر تو ہمت کرے اور صاف نیت کے ساتھ زوال کی ذلت کے گڑھے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے تو تیرا برا وقت ٹل سکتا ہے، سب سے پہلے تو مادی ترقی کے اپنے چار نکاتی ابلیسی نجسی فارمولے کو ترک کردے۔ یاد رکھنا رشوت، سود، جوا، سٹہ، بھتہ، کک بیک اور کمیشن سے کمائی ہوئی دولت زہریلا سانپ ہے، جو آخرکار انسان کو ڈس لیتا ہے۔ اس راستے کو چھوڑ کر سیدھی اور جائز راہ اپنالے…
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تو یہ سمجھنا چھوڑ دے کہ اس دنیا میں ہر شخص کی ایک قیمت ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ انمول ہیں، جو کسی بھی قیمت پر نہ بکتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حیلوں اور چالوں میں پھنستے ہیں، تو ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان کی صحبت اختیار کرلے، تیری تمام مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ نیکی کے کام کرکے کبھی ان کا ڈھنڈورا نہ پیٹنا۔ ریا کاری، بناوٹ اور دکھاوے سے بچنا، کیونکہ دکھاوے کی نیکی کو خدا تعالیٰ ہمارے منہ پر دے مارتا ہے۔ چوتھی اور آخری نصیحت یہ ہے کہ زمینوں پر قبضے یا مال و دولت جمع کرنے کی ہوس، لالچ، حرص اور طمع سے بچنا، کیونکہ یہ اوصاف رذیلہ انسان کو تباہی، بربادی اور ذلت و رسوائی کی دلدل میں پھنسا دیتے ہیں۔
پھر میں نے کہا کہ سب سے پہلا کام یہ کر کہ جذبات، انا اور جھوٹی خود داری کو پس پشت ڈال کر اپنے بیٹے کی دوسری بیوی کے پاس اپنی بیگم کے ساتھ چلا جا، اس سے معافی مانگ کر یہ گزارش کر کہ اس کے اکاؤنٹ میں جو رقم ہے، اس سے تمام مزدوروں اور محنت کشوں کی کئی کئی ماہ کی رکی ہوئی تنخواہیں ادا کر دے، جیسے ہی رکا ہوا تعمیراتی کام شروع ہوگا، برکت والے پیسے آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس کے بعد سودی قرضوں اور تھانہ کچہری کے لفڑوں سے نکلنے کے راستے کھلنے شروع ہو جائیں گے۔ خدا پاک نے چاہا تو مظلوم محنت کشوں کی بددعائیں دعاؤں میں تبدیل ہوتے ہی تیرے اور تیری فیملی کے دن پھرنے لگیں گے۔
اپنے بیٹوں کو پیار سے سمجھانا کہ جُوا کسی کا نہ ہوا۔ اپنے سارے گھرانے کو ایک چھت کے نیچے جمع کرکے یہ باور کرانا کہ زندگی میں کبھی شارٹ کٹ استعمال نہ کریں، ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، جو حلال کماتے ہیں اور سچ بولتے ہیں‘‘۔
میرے دوست نے خاموشی سے میری تقریر سنی، مجھ سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہوگیا۔
قارئین! اپنے دوست کے جانے کے بعد کافی دیر تک میں زندگی کے اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز اور پیچ و خم پر غور کرتا رہا۔ ماضی اور حال کی بھول بھلیوں میں پھرتا رہا۔ میرے دوست کے والد پی اے ایف میں ایک معمولی درجے کے اہلکار تھے۔ ہم سب سرکاری اسکولوں کالجوں میں پڑھتے تھے۔ غربت اور سفید پوشی پر کبھی حرام کمائی کا سایہ نہ پڑا، پھر میرے دوست کا چھکا لگ گیا۔ ترقی کی پتنگ قدرت کی ڈھیل سے اونچی اور اونچی اڑتی گئی۔ اب وقت کی ستم ظریفی نے پتنگ کی ڈور کاٹ دی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ میرے دوست کی اپنی اولاد اس سے دور بھاگ رہی ہے۔ میں نے اسے پورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ مشورہ دیا ہے کہ اسے اس خوفناک بھنور سے اس کی بہو ہی نکال سکتی ہے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ اس کی بہو ضرور اس کی مدد کرے گی۔ بہو تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری حسبی اولاد ہوا کرتی ہے۔
میں یہ سطور تحریر کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ ہمیں دولت کو صرف ضرورت سمجھنا چاہئے۔ اس کی خواہش اور پھر اس کے حصول کے لئے دیوانہ وار اس کی ہوس میں اندھے نہیں ہونا چاہئے۔ جائز اور حلال ذرائع سے کمانا چاہئے۔ اپنی زندگی اس شعر کے مطابق گزارنی چاہئے کہ
کسی سرنگوں سی ٹہنی پر رکھیں گے چار تنکے
نہ بلند شاخ ہوگی نہ گرے گا آشیانہ
اور
کتنے ہی تفکرات سے آزاد ہوگیا
وہ آدمی جو اینٹ پہ سر رکھ کے سوگیا
آپ دعا فرمایئے گا کہ خدا پاک میرے دوست کو مشکلات کے گرداب سے باہر نکالے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More