امت رپورٹ
حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس پر چند روز بعد عمل شروع ہونے کا امکان ہے۔ سیکورٹی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ سطح پر تمام اہم ریاستی اداروں کو اعتماد میں لے کر کیا گیا اور اس کا سبب پی ٹی ایم کی جانب سے ریڈ لائن عبور کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق فیصلے کے بعد اب کارروائی کے طریقہ کار پر مشاورت کی جا رہی ہے۔ جس کے تحت پی ٹی ایم کی اعلیٰ قیادت کی گرفتاریاں اور اگلے مرحلے میں ریاست مخالف تحریک پر پابندی کا آپشن سرفہرست ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ قبل ازیں حکومت کی جانب سے پشتون تحفظ موومنٹ کو مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کی جا رہی تھی، تاکہ اسے غیر ملکی دشمن ایجنسیوں کے ہاتھوں پوری طرح کھیلنے سے روکا جا سکے۔ اسی حکمت عملی کے تحت اپریل میں پی ٹی ایم سے مذاکرات اور ان کے مطالبات پر عمل کے لئے ایک حکومتی جرگہ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم حکومتی جرگے کے ساتھ پی ٹی ایم رہنمائوں کے نصف درجن سے زائد اجلاسوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے بقول جون میں اس سلسلے میں امید کی ایک کرن نظر آئی تھی، جب پی ٹی ایم کے رہنمائوں نے نہ صرف رزمک میں اپنی ریلی منسوخ کی، بلکہ حکومتی جرگے کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنے جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں پاک فوج کے خلاف نعرے اور سلوگن استعمال نہیں کریں گے۔ جرگے کے اس اجلاس میں حکومت کی نمائندگی ملک خان مرجان، اجمل وزیر اور شاہ فرمان نے کی تھی۔ جبکہ پی ٹی ایم کی طرف سے محسن داوڑ سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔ علی وزیر بذریعہ ٹیلی فون اجلاس میں شریک تھے۔ لیکن جلد ہی پی ٹی ایم نے عہد شکنی کی اور اس کے جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف نعروں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ جبکہ پی ٹی ایم کے غیر سنجیدہ رویے کے سبب جرگے کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی ختم ہو گئے اور اس کے بعد سے آج تک یہ بات چیت دوبارہ شروع نہیں ہو سکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات ختم ہونے کے بعد بھی حکومتی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے کہ شاید اس طرح وہ غیر ملکی ایجنڈے کو ترک کر دے۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں وزیرستان سے محسن داوڑ اور علی وزیر کا ارکان قومی اسمبلی منتخب ہونا اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ جبکہ صوبہ خیبر پختون اور فاٹا میں دیرینہ سیاست کرنے والی بعض سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کا خیال ہے کہ اس صورت حال سے تحریک انصاف نے فائدہ اٹھایا۔ اس سلسلے میں یہ رہنما الیکشن سے پہلے عمران خان کی جانب سے پی ٹی ایم کی حمایت کا حوالہ دیتے ہیں۔ جب اپریل میں پی ٹی آئی کے سینیٹر ایوب آفریدی کی پشاور رہائش گاہ پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کے بہت سے مطالبات جینوئن ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کر کے یہ معاملہ ڈسکس کریں گے اور کہیں گے کہ فاٹا سے بارودی سرنگوں اور چیک پوسٹوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل کیا جائے۔ خیبر پختون میں پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی پارٹیوں کے بعض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ سے پی ٹی ایم کے رابطے منظر عام پر آ چکے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے صرف اس بنیاد پر منظور پشتین کی حمایت کی کہ وہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ جبکہ دوسری جانب پی ٹی ایم کے مطالبے پر فاٹا میں قائم بیشتر چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا گیا اور تیزی سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا کام بھی شروع کر دیا گیا، جو آج بھی جاری ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی ایم نے اپنے جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ ذرائع کے بقول پشتون تحفظ موومنٹ کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں یوں ناکام رہیں کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کے ایوان زیریں میں آ جانے کے بعد بھی پی ٹی ایم اپنے مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور اس کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں آئی ایس پی آر کے ترجمان کی جانب سے پی ٹی ایم کو کہا گیا تھا کہ وہ ریڈ لائن عبور کرنے سے گریز کرے۔ تاہم پی ٹی ایم کے ایک اہم رہنما علی وزیر نے اس ریڈ لائن کو عبور کر لیا ہے۔ چند روز پہلے وانا میں رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی زیر سرپرستی ایک مظاہرے میں ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز نعروں کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔ اس مظاہرے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطح پر ویڈیو کا سخت نوٹس لیا گیا۔ اس تناظر میں ہی پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا ہے۔ جبکہ ’’را‘‘ کی جانب سے پی ٹی ایم کے بلوچ علیحدگی پسندوں سے الحاق کرانے کی سازش بھی اس فیصلے کا سبب بنی۔
سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ اس وقت بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دوسرے بڑے شہر پونا میں قائم ’’را‘‘ کے ڈیسک کی جانب سے پی ٹی ایم اور بلوچ علیحدگی پسندوں بالخصوص بی ایل اے کے درمیان باقاعدہ الائنس کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان مخالف عناصر کی تمام سوشل میڈیا ٹیمیں پونے میں واقع ’’را‘‘ کے اس ڈیسک کے ذریعے ہی کنٹرول ہو رہی ہیں۔ بدنام بھارتی خفیہ ایجنسی نے پی ٹی ایم اور بی ایل اے کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے ’’مسنگ پرسن‘‘ کے ایشو کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز منظور پشتین کے سندھ داخلے میں پابندی کا نوٹیفکیشن بھی اسی لئے جاری کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم سربراہ ’’را‘‘ کے دیئے گئے ٹاسک کو پورا کرنے کے لئے آج کل ملک بھر میں اپنے ہم خیال ریاست مخالف عناصر کے ساتھ رابطے کر رہا ہے۔ لیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے منظور پشتین کی صوبے میں داخلے پر پابندی سے متعلق اپنا ہی نوٹیفکیشن واپس لے لیا تھا۔ ذرائع کے بقول یہ رعایت ملنے کے بعد منظور پشتین کراچی تو پہنچا، لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جس پر اس کی اگلی منزل کوئٹہ تھی۔ جہاں بلوچ ’’لاپتہ افراد‘‘ کے لئے ایک کیمپ لگایا گیا ہے۔ منظور پشتین اس کیمپ کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کے نام پر کوئٹہ جانا چاہتا تھا۔ لیکن اس کا اصل مقصد بلوچ علیحدگی پسند عناصر سے خفیہ ملاقاتیں کرنا تھیں۔ تاہم کوئٹہ ایئر پورٹ سے ہی منظور پشتین کو واپس بھیج کر یہ کوشش بھی ناکام بنا دی گئی۔
منظور پشتین نے 2014ء میں محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے تنظیم بنائی تھی۔ لیکن اس کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ تاہم منظور پشتین اس وقت خبروں میں آیا جب رواں برس نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا۔ جس کے بعد اس نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر پشتون تحفظ موومنٹ رکھ لیا۔ نقیب اللہ کے لئے انصاف کے حصول کی تحریک دراصل سہراب گوٹھ کراچی سے شروع کی گئی تھی۔ جس میں محسود اور دیگر قبائل کے مشران شامل تھے۔ تاہم اس تحریک کو اسلام آباد دھرنے کے دوران منظور پشتین نے ہائی جیک کر لیا، اور اب اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ کراچی جرگے کے ایک عہدیدار کے مطابق اگر نقیب اللہ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا تو آج منظور پشتین کو کوئی جانتا بھی نہیں۔ بدقسمتی سے صرف ایک پولیس افسر کو بچانے کے لئے پشتون تحفظ موومنٹ جیسی ریاست مخالف تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع دے دیا گیا۔ اور آج ملک کو اس فتنے کا شدت سے سامنا ہے۔
٭٭٭٭٭