محدثین کے حیران کن واقعات

0

امام ترمذیؒ طلب ِعلم میں محنت، حدیث وفقہ میں علمی رسوخ اور دیگر گونا گوں صفات کی وجہ سے مرجع خلائق بن گئے تھے۔ متلاشیانِ علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے ان کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے۔ ان کے تلامذہ میں خراسان و ترکستان کے علاوہ دنیائے اسلام کے مختلف گوشوں کے آدمی ملتے ہیں۔
بے مثال حافظہ:
حق تعالیٰ جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی خود پیدا فرما دیتا ہے۔ امام ترمذیؒ کو جس طرح اکابر محدثین سے استفادہ کا موقع ملا، ویسے ہی انہیںخداداد قوتِ حافظہ بھی عطا کی گئی۔ حافظ ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں نقل کیا ہے کہ ابوسعید ادریسیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’امام ترمذیؒ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جو علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے، آپؒ نے اپنی مشہور کتاب جامع، تاریخ اور علل کو ایک پختہ ماہر، عالم کی طرح تصنیف کیا ہے۔‘‘
آپ کی قوتِ حافظہ ضرب المثل تھی۔ ان کا ایک حیرت انگیز واقعہ رجال کی سب کتابوں میں موجود ہے کہ ’’انہوں نے ایک شیخ سے دو جز کے بقدر حدیثیں سنیں اور قلم بند کر لیں، لیکن ابھی تک شیخ کو پڑھ کر سنانے اور ان کی تصحیح کر نے کا موقع نہ ملا تھا۔ ایک روز حسن اتفاق سے مکہ مکرمہ کے راستے میں ان سے ملاقات ہوگئی تو امام ترمذیؒ نے اس موقع کو غنیمت جان کر شیخ سے قرأت کی درخواست کی، انہوں نے منظور کرلی اور کہا: اجزا نکال لو، میں پڑھتا ہوں تم مقابلہ کرتے جاؤ۔ ترمذیؒ نے اجزا تلاش کئے، مگر وہ ساتھ نہ تھے۔ بہت گھبرائے، لیکن اس وقت ان کی سمجھ میں اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ سادہ کاغذ کے دو اجزا ہاتھ میں لئے اور متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ شیخ نے قرأت شروع کی اور اتفاق سے ان کی نظر کاغذ پر پڑ گئی تودیکھا کہ شاگرد سادہ اور سفید کاغذپر نظریں گھما رہا ہے۔ شیخ غصہ میں آگئے اور فرمایا: مجھ سے مذاق کرتے ہو؟ ترمذیؒ نے اصل واقعہ بیان کیا اور کہا: اگرچہ وہ اجزا میرے پاس نہیں ہیں لیکن لکھے ہوؤں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ شیخ نے فرمایا: اچھا پھرسناؤ۔ امام ترمذیؒ نے وہ تمام حدیثیں فرفر سنا دیں۔ شیخ کو خیال ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں، اس لئے فر فر سنا گئے ہیں۔ امام ترمذیؒ نے عرض کیا کہ آپ ان کے علاوہ کوئی دوسری احادیث پڑھ کر سنائیں اور امتحان لے لیں۔ شیخ نے اپنی خاص چالیس حدیثیں اور پڑھیں۔ امام ترمذیؒ نے وہ تمام احادیث بھی من وعن دہرا دیں۔ تب شیخ کو ان کے قوتِ حافظہ کا یقین ہوگیا اور نہایت تعجب سے فرمایا: ’’میں نے (قوتِ حافظہ) میں تجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘
امام ترمذیؒ کے بارے میں حافظ ذہبیؒ میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ بہت بڑے حافظ، ثقہ اور مسلمہ امام ہیں۔ ‘‘
اور ابن حبانؒ کتاب الثقات میں فرماتے ہیں: ’’امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ ان لوگوںمیں سے تھے جنہوں نے (احادیث)کو جمع کیا، انہیں لکھا، اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور آگے بیان کیا۔‘‘
زہد و تقویٰ:
امام ترمذیؒ زہد و ورع اور خوف خدا میں یکتائے روز گار تھے۔ جیسا کہ محدثین کرام کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ بلند اخلاق سے آراستہ اور بہترین صفات کے حامل تھے۔ باقاعدگی سے قرآنِ مجید کی تلاوت، تہجد اور شب زندہ داری ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک تھے۔ سنت کے سچے دل سے خدمت گزار اور اس پر عامل تھے۔ حسد، بغض، چغلی اور غیبت کو کبیرہ اور قبیح ترین گناہ سمجھتے تھے۔ امام ترمذیؒ کے دل میں خوفِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ بکثرت روتے رہتے جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔ اگرچہ بعض کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی نابینا تھے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ آخری عمر میںبکثرت رونے سے نابینا ہوگئے تھے۔ جیسا کہ امام حاکمؒ نے فرمایا ہے کہ ’’امام بخاریؒ کے انتقال کے بعد خراسان میں علم و حفظ اور زہد و تقویٰ میں ابوعیسیٰ ترمذیؒ جیسا کوئی نہیں تھا۔ وہ اس قدر روتے کہ آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگئے اور سال ہا سال اسی طرح نابینا ہی زندگی گزار دی۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More