وزن کی حقیقت

0

ظاہری وزن:
وزن کیا ہے؟ اس کی حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وزن کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ظاہری اور حقیقی۔ دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں، ان میں وزن ہوتا ہے۔ دنیا کی یہ چیزیں آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ مثلاً پتھر، کنکر، برتن، سبزیاں، پھل اور کاغذ، یہاں تک کہ اگر آپ کے ہاتھ میں کاغذ کا کوئی ٹکڑا ہے، اس کا بھی وزن ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس کو آپ وزن کہتے ہیں، وہ وزن نہیں ہے۔ کسی چیز میں بھی اپنا کوئی وزن نہیں ہوتا۔
اصل میں زمین کی کشش ثقل کا نام وزن ہے۔ آپ زمین پر پڑا ہوا پتھر اٹھائیں اور ہوا میں اچھالیں۔ وہ زمین کی طرف تیزی سے آئے گا۔ اسی طرح ہر چیز ہلکی ہو یا بھاری، زمین کی طرف جانا چاہتی ہے۔ اگر بیچ میں کوئی فرض کیجئے ایک میز رکھی ہے۔ آپ نے زمین پر پڑا ہوا تقریباً پانچ کلو وزن کا پتھر اس میز پر رکھ دیا۔ پتھر اٹھاتے وقت جو وزن آپ نے محسوس کیا تھا، وہ پتھر کا وزن نہیں تھا، بلکہ اس کا تقاضہ تھا کہ میرا مرکز زمین ہے، مجھے زمین پر پہنچاؤ۔ اب جیسے ہی میز ہٹے گی، وہ اپنے مرکز پر پہنچ کر مطمئن ہو جائے گا۔ یہی حال آنکھوں سے نظر آنے والی ہر چیز کا ہے۔
حقیقی وزن:
وزن کی دوسری قسم ان چیزوں کا وزن ہے، جو آنکھوں سے نظر نہیں آتیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی۔ ہمیں کیا معلوم کہ دنیا میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو وزنی ہیں، مگر نظر نہیں آتیں۔ اول تو اس کا جواب ہمیں اسی ذات سے پوچھنا چاہئے، جو اس ساری کائنات خالق ہے۔ جو کائنات میں موجود ہر شے کا خالق ہے۔ چنانچہ سورۃ الرحمن میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ: ’’اسی نے آسمان کو بلند کیا ہے اور اسی نے ترازو قائم کی ہے کہ تم تولنے میں ظلم نہ کرو اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کمی نہ کرو‘‘۔ (سورۃ الرحمن۔ آیات 7 تا 9)
اس آیت میں میزان یعنی ترازو کا ذکر ہے اور ترازو میں ان ہی چیزوں کو تولا جاتا ہے، جن میں وزن ہو، مگر ان آیات میں چونکہ خطاب انسانوں ہی سے ہے۔ اس لئے بظاہر ان ہی چیزوں کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جو نظر آنے والی ہیں۔ اگرچہ یہ صراحت نہیں ہے۔ مگر قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ میزان عمل کا بیان ہے۔ جیساکہ آگے معلوم ہوگا۔
بے وزنی کی حقیقت:
جدید سائنس نے تو ہمیں آج بتایا ہے کہ آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں میں بھی وزن نہیں ہوتا۔ چنانچہ جب کوئی چیز زمین کے دائرئہ ثقل سے دور نکل جاتی ہے تو اس میں وزن نہیں ہوتا۔ فرض کیجئے آپ خلاء میں ہیں، آپ کوئی بڑا پتھر اٹھا کر ہوا میں اچھال دیں تو وہ ہوا میں تیرتا رہے گا، بلکہ آپ خود اپنے وجود کو بے وزن پائیں گے اور آپ ہی نہیں، بلکہ زمین سے ہزاروں لاکھوں گنا بڑے سیارے بھی ہوا میں تیرتے نظر آئیں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ آپ کا وجود، آپ کی چاند گاڑی، آپ کا پورا سامان زمین ہی سے آیا ہے۔ یہ اپنے محبوب یعنی زمین سے دور ہونے کی وجہ سے اپنا وزن کھو کر خلاء میں بھٹک رہے ہیں۔ جیسے ہی یہ زمین پر آئیں گے تو محبوب سے مل کر مطمئن ہو جائیں گے اور ان کا کھویا ہوا وزن واپس آجائے گا۔ ان سب چیزوں کا محبوب زمین ہے۔
حقیقی وزن:
اب تک ان چیزوں کا ذکر تھا، جو آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اب ان چیزوں کو دیکھتے ہیں، جو آنکھوں سے نظر نہیں آتیں۔ اگر ہم اپنی روزمرہ کی گفتگو میں غور کریں گے تو نظر آئے گا کہ ہم بہت سے نظر نہ آنے والی چیزوں کا وزن بیان کرتے ہیں، چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ اس کی ’’اس کی بات میں بڑا وزن ہے‘‘۔ ’’تم مجھ پر بڑا بھاری الزام لگا رہے ہو‘‘۔ بات کا کوئی مادی وجود ہے، نہ الزام کا۔ وزنی اور بھاری کے الفاظ وزن ہی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ ’’میں شرم سے اس کے سامنے بڑا ہلکا ہوا‘‘۔ ’’تمہاری یہ بات بڑی ہلکی ہے‘‘ وغیرہ۔ یہ سارے محاورات وزن کو بیان کر رہے ہیں۔ جبکہ ان میں کوئی چیز بھی آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔
مختصر خلاصہ یہ ہوا کہ وزن کا لفظ اعتباری ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر وزنی چیز آنکھوں سے بھی نظر آئے، جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہو گیا۔
قرآن و سنت کے دلائل:
سورۃ الاعراف میں حق تعالی شانہٗ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ ’’اور اس دن (اعمال کا) وزن ہونا اٹل حقیقت ہے۔ چنانچہ جن کی ترازو کے پلے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہیں اور جن کی ترازو کے پلے ہلکے ہوں گے، وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کرکے اپنی جانوں کو گھاٹے میں ڈالا ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف۔ آیات۔ 8، 9)
ان آیات میں قیامت کے دن قائم کی جانے والی ترازو کا ذکر ہے، جس میں انسانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ اس کے دونوں پلوں میں آدمی کے اعمال رکھے جائیں گے۔ ان کا بھاری اور ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال کا وزن بھاری ہوگا، وہی لوگ فلاح و نجات پائیں گے۔ یعنی منکرین اور کفار کے مجاہدے اور محنتیں سب بے کار ہوں گے۔ کیوں بیکار ہوں گے؟ اس لئے کہ ان کے پاس ایمان کا پہاڑ جیسا وزنی عمل نہیں ہوگا۔
مسلمانوں کے لئے حق تعالیٰ کی صرف ایمان والی نعمت عظمیٰ کا حقیقی شکر ادا کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر کسی فاسق و فاجر آدمی کا ایمان بھی ترازو میں رکھا جائے گا، وہ اسے بالآخر سزا پانے کے بعد جنت میں پہنچانے کے لئے کافی ہوگا۔
سورہ الکہف میں حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے۔
(ترجمہ) ’’چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے مالک کی آیتوں کا اور اس کے سامنے پیش ہونے کا انکار کیا۔ ان کے اعمال غارت ہوگئے۔‘‘ (سورۃ الکہف۔ آیت 105)
اس آیت میں ’’وزن قائم نہ کرنے‘‘ کے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعمال میں وزن تو ہوگا۔ مگر شمار نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں شمار ہی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ راقم عرض کرتا ہے کہ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے اعمال کا وزن ہی ختم کر دیا جائے۔ اس صورت میں ان کی مثال ان پتھروں کی سی ہوگی، جو اپنے مرکز محبوبیت یعنی زمین سے دور ہو کر خلاء میں بٹھک رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کا قلب ایمان کے وزن سے خالی ہوگا۔ تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے کفر انکار کو باٹ والے پلے میں رکھ دیا جائے۔ اس طرح اعمال کا پلہ ہلکا ہو جائے گا۔ اس صورت میں کفر کا وزنی ہونا ماننا پڑے گا اور اس میں بھی کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ کفر و انکار یا شرک حق تعالیٰ پر برا بھاری بہتان ہے۔ جس کا قرآن میں کفار کے لئے جگہ جگہ اعلان ہے۔ (راقم)
سورۃ القارعۃ میں بھی جو اکثر نمازوں میں پڑھی جاتی ہے، نظر نہ آنے والے اعمال کا ذکر ہے، جن کا مفہوم یہ ہے کہ جس کے اعمال وزنی ہوں گے، وہ من پسند زندگی میں ہوں گے اور جن کے اعمال ہلکے ہوں گے، ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ بہرحال اعمال کے وزن کا عقیدہ ہر مسلمان کا مسلمہ عقیدہ ہے۔
اعمال میں وزن کیسے پیدا ہو؟
یہاں اعمال سے مراد دنیوی اعمال نہیں ہیں، بلکہ حق تعالیٰ کی اطاعت و عبادات مراد ہیں اور عبادات میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اورجہاد کے علاوہ معاشرتی احکام بھی ہیں کہ اول تو ان عبادتوں کے ظاہری احکام مثلاً قیام، رکوع، سجود وغیرہ کو پوری طرح ادا کیا جائے۔ مثلاً رکوع سجود میں ڈنڈی نہ ماری جائے۔ اکثر لوگ رکوع کے بعد پورا کھڑا ہوئے بغیر ہی سجدے میں چلے جاتے ہیں یا دو سجدوں کے درمیان پوری طرح بیٹھے بغیر اشارہ سا کر کے سجدے میں چلے جاتے ہیں یا نیک اور صالح لوگ ارکان نماز کا تو خیال رکھتے ہیں۔ لیکن خرید و فروخت میں جھوٹ اور دھوکے فریب سے نہیں بچتے۔ حلال و حرام کا خیال نہیں رکھتے۔ ان صورتوں میں ظاہری عبادات کا ثواب بھی ہلکا ہو جاتا ہے اور بعض صورتوں میں نماز ہی نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ خدا کے سچے بندے اپنے ہر قول و فعل کو پہلے سنت کی ترازو میں تولتے ہیں، پھر بولتے یا عمل کرتے ہیں۔ یہ وہ خوش نصیب بندے ہیں، جو ہر وقت اپنے اعمال میں وزن پیدا کرنے کی فکر کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ اپنے نفس کی خواہشوں کا گلا گھونٹتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی صحبت اعمال میں وزن پیدا کرنے کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ حق تعالیٰ ہمارے قول و فعل میں یہاں وزن پیدا فرما دے، تاکہ قیامت کے دن نیک اعمال کا پلہ ہلکا نہ ہوجائے۔ آمین۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More