معارف ومسائل
وَقَدْ اَخَذَ مِِیْثَاقَھُم… اس سے میثاق ازل بھی مراد ہو سکتا ہے، جب کہ حق تعالیٰ نے مخلوقات کے پیدا ہونے سے پہلے ہی وجود میں آنے والی تمام ارواح
کو جمع کر کے ان سے ربوبیت یعنی اپنے رب العالمین ہونے کا اقرار اور عہد لیا تھا، جس کا ذکر قرآن میں (الست بربکم) کے الفاظ سے آیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میثاق سے وہ عہد و میثاق مراد ہو، جو پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں سے خاتم الانبیائؐ پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کے متعلق لیا گیا ہے، جس کا ذکر بھی قرآن کریم کی دوسری آیت میں ہے۔
اِنْ کُنْتُمْ… یعنی اگر تم مومن ہو، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کلام ان کفار سے ہو رہا ہے جن کے مومن نہ ہونے پر تنبیہ اس سے پہلے آ چکی ہے، پھر ان کو یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ ’’اگر تم مومن ہو‘‘۔
جواب یہ ہے کہ کفار و مشرکین بھی حق تعالیٰ پر تو ایمان کے مدعی تھے، بتوں کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ہم ان کی پرستش اس لئے کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش کریں گے، تو مطلب آیت کا یہ ہوا کہ تم جو خدا پر ایمان رکھنے کے مدعی ہو، اگر تمہارا یہ دعویٰ سچا ہے تو پھر ایمان کی صحیح اور معتبر صورت اختیار کرو، جو اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ خدا پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے رسول پر بھی ایمان لاؤ۔
میراث اصل میں اس ملکیت کو کہا جاتا ہے جو پچھلے مالک کے انتقال کے بعد اس کے بعد زندہ رہنے والے وارثوں کو ملا کرتی ہے اور یہ ملک جبری ہوتی ہے، مرنے والا چاہے یا نہ چاہے جو وارث ہوتا ہے، ملکیت اس کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، یہاں حق تعالیٰ کی ملکیت آسمان و زمین کو میراث کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو جس جس چیز کے مالک آج تم سمجھے جاتے ہو وہ سب بالآخر حق تعالیٰ کی ملکیت خاصہ میں منتقل ہو جائے گی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post