ایک روز خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اپنے لاڈلے بھتیجے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے کہا: ’’میں نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی تیرے ساتھ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بہت خوبصورت جواب دیا، جو انہیں بڑا ہی پسند آیا۔ امیر المومنین رب تعالیٰ آپ کو اپنا قرب نصیب فرمائے، آپ نے بڑی ہی کرم نوازی کی ہے۔ عبد الملک کے ایک ہم نشین نے کہا: ’’یہ سیکھی ہوئی بات اس نے اپنی زبان سے ادا کی ہے۔‘‘
ایک دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اپنے چچا عبد الملک بن مروان کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے عمر! تم کتنا خرچ لو گے؟ انہوں نے ایسا جواب دیا جو پہلے سے بھی دلچسپ اور خوش کن تھا۔ کہا: اے امیر المومنین! میں دو گناہوں کے درمیان کی کیفیت کو پسند کرتا ہوں۔
عبد الملک بن مروان نے حیران ہو کر پوچھا کہ دو گناہوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’جو لوگ خرچ کرتے ہیں، وہ اسراف نہیں کرتے اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں اور میانہ روی سے کام لیتے ہیں۔‘‘ (الفرقان: 67)
عبد الملک بن مروان نے اپنے بیٹے سے کہا: یہ بات انہیں کس نے سکھلائی؟ یہ وہ حکمت و دانش ہے، جو رب سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو عطا کی۔
’’وہ حکمت دیتا ہے جسے چاہتا ہے، جسے حکمت دے دی جائے تو اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی۔‘‘ (البقرہ: 269)
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ، خلیفہ عبد الملک بن مروان کی بیٹی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے، وہ بڑی حسین و جمیل اور خواتین میں سب سے زیادہ علم و ادب اور حسب و نسب کے اعتبار سے ممتاز تھیں، ان کی شادی تاریخ کی مشہور و معروف شادیوں میں سے ہے۔ ان کی رخصتی کا دن دمشق کا یادگار دن تھا۔ ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے:
میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی حضرت فاطمہؒ کے ساتھ شادی کے دن دمشق میں موجود تھا، چاروں طرف خوشبو کی مہک پھیلی ہوئی تھی، قندیلوں میں عمدہ و اعلیٰ قسم کی خوشبو آویزاں کی ہوئی تھی، فضا خوشیوں کے پھول برسا رہی تھی اور حضرت فاطمہؒ کی ڈولی پر یہ شعر لکھا ہوا تھا:
ترجمہ ’’خلیفہ کی بیٹی اور ان کا دادا خلیفہ،خلفاء کی بہن اور ان کا خاوند خلیفہ۔‘‘
حضرت فاطمہؒ اپنے خوشحال شوہر کے ساتھ ناز و نعم سے زندگی بسر کرنے لگیں تا آنکہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ مدینہ منورہ منتقل ہو گئیں، کیونکہ وہ مدینے کے گورنر بن گئے تھے۔ حضرت فاطمہؒ اور ان کے خاوند مدینہ میں سعادت کے چشموں سے سیراب ہونے لگے، جو ان دونوں کے دلوں میں پھوٹ رہے تھے۔ رب تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے اسحاق اور یعقوب دو بیٹے عطا کئے۔
دونوں میاں بیوی کئی سال تک اسی طرح خوشحالی کی زندگی بسر کرتے رہے، یہاں تک 99ھ میں ایک روز ہر چیز یکسر بدل گئی۔
اس بات کو بھلا کون سچ مانے گا کہ ایک خاتون جس نے ناز و نعمت میں زندگی بسر کی ہو، زیورات اور شاہی پوشاک میں اس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ گزارا ہو، وہ ایک ہی لمحے میں یہ سب کچھ چھوڑ دے گی؟!!!
حضرت فاطمہؒ، تاریخ نے جن کے نام کو زندہ جاوید رکھا، انہوں نے یہ کارنامے کر دکھلایا، حالانکہ بہت سی ان کی ہم عصر خواتین کو تاریخ نے یکسر بھلا دیا، ان کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہا۔
یہ واقعہ 99ھ ماہ صفر میں ظہور پذیر ہوا، جب ان کے خاوند حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مسند خلافت پر جلوہ نشین ہوئے۔
حضرت فاطمہؒ نے اپنے شوہر کی نئی زاہدانہ زندگی دیکھ کر اپنے ذوق اور نقطۂ نگاہ میں تبدیلی پیدا کر لی۔ ایک روز حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت فاطمہؒ کے پاس آئے جنہیں وہ علم و ادب، عصمت و عفت اور دین داری کے اعتبار سے عزت و شرف کے آسمان پر فائز تصور کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک ایسا قیمتی موتی تھا، جو کبھی کسی نے دیکھا نہ ہو۔ ان سے پوچھا یہ کہاں سے آیا۔
انہوں نے کہا: میرے ابا جان امیر المومنین عبد الملک بن مروان نے مجھے دیا ہے۔ فرمایا: اسے بیت المال میں داخل کرا دو یا مجھے اجازت دو کہ میں آپ کو فارغ کر دوں، کیونکہ ایک گھر میں تم اور یہ قیمتی موتی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا: امیر المومنین اس جیسے کئی جواہرات آپ پر قربان، یہ ایک جوہر کیا ہوتا ہے! میں آپ کو پسند کرتی ہوں، آپ سے جدا نہیں رہ سکتی۔ یہ کہا اور قیمتی جوہر بیت المال میں داخل کرا دیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی وفات کے بعد حضرت حضرت فاطمہؒ کے بھائی ولید بن عبدالملک مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو اس نے اپنی بہن سے کہا: اگر آپ چاہتی ہیں تو میں وہ قیمتی موتی آپ کو واپس کر دیتا ہوں یا اس کی قیمت آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔ بہن نے کہا: نہیں میں نے خوشی سے یہ بیت المال میں جمع کرایا تھا اور اب اپنے خاوند کی وفات کے بعد اسے واپس لے لوں، یہ نہیں ہو سکتا۔ ولید بن عبدالملک نے جب یہ صورت حال دیکھی تو وہ جوہر اپنے اہل خانہ میں تقسیم کر دیا۔ حضرت فاطمہؒ نے اپنے خاوند کو پسند کیا، جو باقی رہنے والا قیمتی جوہر تھا، رہا اپنا زیور وہ تو زائل ہونے والا جوہر تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post