اصحابِ کہف کون تھے؟ ان کی تعداد کتنی تھی؟ وہ کتنا عرصہ سوتے رہے؟ اور ان کے نام کیا کیا تھے؟ ان عظیم لوگوں کا قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، بلکہ ایک پوری سورت ان کے نام سے موسوم ہے۔ ان کے بارے میں کچھ دلچسپ و عجیب واقعات تفاسیر کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ’’دقیانوس‘‘ تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا، یہ اس کو قتل کر ڈالتا تھا۔
اصحابِ کہف شہر ’’اُفسوس‘‘ کے شرفاء تھے، جو بادشاہ کے معزز درباری بھی تھے۔ مگر یہ لوگ صاحبِ ایمان اور بت پرستی سے انتہائی بیزار تھے۔ دقیانوس کے ظلم و جبر سے پریشان ہو کر یہ لوگ اپنا ایمان بچانے کے لئے اس کے دربار سے بھاگ نکلے اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہوئے اور سو گئے، تو تین سو برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں سوتے رہ گئے۔ دقیانوس نے جب ان لوگوں کو تلاش کرایا اور اس کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ غار کے اندر ہیں تو وہ بے حد غصہ ہوا اور فرط غیظ و غضب میں یہ حکم دے دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار اٹھا کر بند کردیا جائے تاکہ یہ لوگ اسی میں رہ کر مرجائیں اور وہی غار ان لوگوں کی قبر بن جائے۔
مگر دقیانوس نے جس شخص کے سپرد یہ کام کیا تھا، وہ بہت ہی نیک دل اور صاحبِ ایمان آدمی تھا۔ اس نے اصحابِ کہف کے نام، ان کی تعداد اور ان کا پورا واقعہ ایک تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق کے اندر رکھ کر دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا اور اسی طرح کی ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی۔ کچھ دنوں کے بعد دقیانوس بادشاہ مر گیا اور سلطنتیں بدلتی رہیں۔ یہاں تک کہ ایک نیک دل اور انصاف پرور بادشاہ جس کا نام ’’بیدروس‘‘ تھا، تخت نشین ہوا، جس نے اڑسٹھ سال تک بہت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے دور میں مذہبی فرقہ بندی شروع ہو گئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت کا انکار کرنے لگے۔ قوم کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ رنج و غم میں ڈوب گیا اور وہ تنہائی میں ایک مکان کے اندر بند ہو کر خداوند قدوس عزوجل کے دربار میں نہایت بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری کر کے دعائیں مانگنے لگا کہ خدایا کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما دے تاکہ لوگوں کو مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنے اور قیامت کا یقین ہو جائے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post