امام ترمذیؒ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث ہونے کے ساتھ حکیم بھی تھے۔ رب العزت نے آپ کو اس قدر حسن دیا تھا کہ لوگ دیکھ کر فریفتہ ہو جاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو باطنی حسن بھی دیا تھا۔
آپ عین جوانی کے عالم میں ایک دن اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت اندر آئی اور آتے ہی اس نے اپنا چہرہ کھول دیا۔ وہ عورت نہایت حسین و جمیل تھی۔ وہ آپ سے کہنے لگی کہ ’’میں آپ کے حسن پر فدا ہوں اور بہت دنوں سے موقع کی تلاش میں تھی، آج بہت مشکل سے تنہائی ملی ہے، آپ میری خواہش پوری کر دیں…!‘‘
امام ترمذیؒ کا تقویٰ تو مشہور ہے۔ عورت کی یہ بات سن کر آپ کے دل پر خوفِ خدا اتنا غالب ہوا کہ آپ رو پڑے اور اتنا روئے کہ وہ عورت نادم ہو کر واپس چلی گئی اور آپ دیر تک روتے رہے۔
مدت گزر گئی، آپ اس بات کو بھول گئے اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوگئے، بال سفید ہوگئے۔ ایک دن مصلے پر بیٹھے تھے کہ دل میں خیال پیدا ہوا کہ ’’اگر اس وقت میں اس عورت کی خواہش پوری کر دیتا تو کیا تھا، بعد میں توبہ کر لیتا…‘‘
لیکن جیسے ہی یہ خیال دل میں آیا فوراً رونے لگ گئے اور کہنے لگے: ’’اے رب کریم! جوانی میں تو یہ حالت تھی کہ میں گناہ کا نام سن کر ہی اتنا رویا تھا کہ وہ عورت میرے رونے سے نادم ہو گئی تھی۔ اب میرے بال سفید ہوگئے ہیں تو کیا میرا دل سیاہ ہو گیا ہے، جو میرے دل میں اس گناہ کا خیال پیدا ہوا؟ اے مولائے کریم! میں تیرے سامنے کس طرح پیش ہوںگا، اس بڑھاپے میں جب میرے اندر قوت بھی نہیں رہی، میرے دل میں گناہ کا خیال کیسے آ گیا؟‘‘
اسی حالت میں روتے روتے سو گئے، خواب میں نبی کریمؐ کی زیارت ہوئی، آپؐ نے فرمایا: ’’ترمذی! کیوں روتے ہو؟‘‘
عرض کیا: ’’میرے محبوب! جب جوانی کا زمانہ تھا، قوت اور شہوت کا زور تھا، تب تو کا خوف اتنا تھا کہ گناہ کی بات سن کر ہی خدا کے خوف سے رونے لگ گیا تھا، لیکن اب جبکہ بال سفید ہوگئے اور بڑھاپا آگیا تو دل اس قدر سیاہ ہوگیا ہے کہ یہ خیال آیا کہ اس وقت خواہش پوری کر لیتا اور بعد میں توبہ کر لیتا، میں اس لیے پریشان ہوں۔‘‘
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’پریشان نہ ہو۔ یہ تیری کمی یا قصور نہیں، جب تو جوان تھا تو میرے زمانے سے زیادہ قریب تھا، ان برکتوں کی وجہ سے تیری یہ کیفیت تھی کہ گناہ کا خیال دل میں نہیں آیا، اب تیرا بڑھاپا آگیا ہے تو میرے زمانے سے بھی دوری پیدا ہوگئی، اس لیے اب دل میں گناہ کا وسوسہ پیدا ہوا، بس توبہ استغفار کیا کر، حق تعالیٰ معاف کرنے والا ہے!‘‘
حوالہ: (کتاب: ’’بکھرے موتی‘‘ جلد نمبر: 7، صفحہ نمبر: 44)
امام ابوالحسن دارقطنیؒ (ولادت: 306ھ۔ وفات: 367ھ)
امام ابوالحسن علی بن عمر دارقطنی، دارقطن کے رہنے والے تھے۔ یہ بغداد کا ایک محلہ تھا۔ عربی میں قطن روئی کو کہتے ہیں۔ یہ محلہ روئی کی منڈی تھی۔
معرفت علل، اسماء رجال اور معرفت رواۃ میں دارقطنی کو بلند مقام حاصل تھا۔ دوسرے علوم خاص طور سے قرآن اور فقہاء کے مذہب اور ان کے اختلافات سے انہی اچھی واقفیت حاصل تھی۔ شعر و ادب پر عبور رکھتے تھے۔ عرب کے بہت سے دواوین انہیں حفظ تھے۔ ابو طیب حدیث میں دارقطنی کو امیر المومنین کہتے تھے۔ (حدیث کا تعارف، ص: 411)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post