حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا: آخری چار آدمی دوزخ سے نکالے جائیں گے اور ان کو حق تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اس وقت حق تعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ ان کو دوبارہ دوزخ میں داخل کر دیا جائے۔
اس وقت ان میں سے ایک شخص حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرے گا: اے ہمارے رب! جب آپ نے مجھے اس دوزخ سے ایک دفعہ نکال دیا ہے تو آپ کی رحمت سے مجھے قوی امید ہے کہ دوسری دفعہ آپ مجھے اس میں داخل نہیں کریں گے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ اس کی درخواست کو قبول فرمائیں گے اور اس کو دوزخ سے نجات دلا کر جنت میں داخل فرما دیں گے۔ (موت کا منظر صفحہ نمبر 279)
حضرت حسنؓ کہتے ہیں، رسول اکرمؐ نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ خدا تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے ابن آدم! تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا۔ اسے نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر، میرے پاس رکھا گیا یہ خزانہ میں پورا تجھے دے دوں گا اس دن، جب کہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔ (زاد راہ صفحہ نمبر 202)
صدقہ کی برکات!
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں، میں نے مسجد نبویؐ کے منبر پر رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے سنا: اے لوگو! جہنم کی آگ سے بچو، اگرچہ تمہارے پاس کھجور کا آدھا ہی ٹکڑا ہو، وہی دے کر آگ سے بچو، اس لئے کہ صدقہ انسان کی کجی کو درست کرتا ہے، بری موت مرنے سے بچاتا ہے اور بھوکے کا پیٹ بھرتا ہے۔ (زاد راہ صفحہ نمبر 196)
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے!
ایک دفعہ مسلم بن عبدالملک ایک مقدمے میں فریق کی حیثیت سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے پیش ہوئے، چوں کہ شاہی خاندان سے تھے، اس لئے دوبارہ فرش پر جا بیٹھے، عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا اپنے فریق کی موجودگی میں آپ فرش پر نہیں بیٹھ سکتے، عام لوگوں کے برابر بیٹھو یا کسی دوسرے کو اپنا وکیل مقرر کرو۔ (مخزن صفحہ نمبر 223)
دیانت!
ایک نابینا سوالی ہاتھ پھیلا کر قرآن مجید کی تلاوت کرتا تھا، ایک سخی آدمی کو اس کا یہ فعل اچھا معلوم نہ ہوا کہ غیر مسلم دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ان کا قرآن کریم صرف سوال کرنے کا ذریعہ ہے اور کسی کام کا نہیں۔
تو انہوں نے اس نابینا سے کہا کہ ایک روپیہ روز مجھ سے لے لیا کرو اور ہاتھ پھیلا کر نہ مانگا کرو بلکہ ایک گوشہ میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو۔
اس حال میں جو کچھ کوئی آپ کو دے وہ مجھے لاکر بتادیا کرو، نابینا تلاوت میں مشغول ہوگیا اور گوشہ نشین ہوگیا، ایک عرصے بعد قریب سے گزرتے ہوئے دریا سے کسی نے اس کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھ لیا تو منت مان لی کہ اگر اس مرتبہ میں جہاز لے کر بخیر و عافیت واپس یہاں لوٹ آؤں گا تو اس نابینا کو ایک لاکھ روپیہ کی خطیر رقم پیش کروں گا۔
اتفاقاً اس کا جہاز بھنور میں پھنسا اور پھر اس کے باوجود بخیر و عافیت وہ شخص واپس لوٹ آیا تو منت کے مطابق اس نے اس نابینا کو ایک لاکھ روپے پیش کیے۔ نابینا نے اتنی رقم دیکھ کر خیانت نہ کی، بلکہ وہ رقم سخی کے پاس لے گیا، سخی شخص نے اس کی دیانت کو دیکھتے ہوئے وہ رقم اس کو انعام میں دے دی۔ (وعظ سعید صفحہ نمبر 362)
٭٭٭٭٭
Prev Post